امریکہ نے ایران کے مزید نو اداروں اور شخصیات پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی محکمۂ خزانہ کے مطابق پابندیوں کا نشانہ بننے والے افراد اور ادارے بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں سے بچنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ایرانی حکومت کی مدد کر رہے تھے۔
واشنگٹن میں محکمۂ خزانہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق اس نئے اقدام کا مقصد ایران پر پہلے سے عائد پابندیوں کو موثر بنانا ہے۔
بیان میں امریکہ کے نائب وزیرِ خزانہ ڈیوڈ کوہن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران پر ایک ایسے وقت میں مزید پابندیاں عائد نہیں کرنا چاہتا جب اس کے جوہری تنازع پر عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن، ان کے بقول، امریکہ یہ واضح کرچکا ہے کہ ایران پر پہلے سے عائد پابندیوں کے نفاذ میں کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
بیان کے مطابق ایرانی حکومت کی جانب سے امریکی ڈالر حاصل کرنے کی کوششوں میں معاونت کرنے پر پانچ افراد اور ایک ادارے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ پابندیوں کا نشانہ بننے والے افراد میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
ایک ایرانی بینکر کے خلاف ایران کے مرکزی بینک کو امریکی ڈالرز کی خریداری میں مدد دینے پر پابندیوں کا نشانہ بنایا گیاہے جب کہ دو ایرانی کمپنیوں پر ایرانی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں میں معاونت کرنے پہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
امریکی محکمۂ خزانہ کی جانب سے ایران پر عائد کی جانے والے ان نئی پابندیوں سے محض ایک روز قبل امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ایک انٹرویو میں امید ظاہر کی تھی کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام پر سمجھوتے کا امکان موجود ہے۔
اس انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کام کر نے کے سلسلے میں پر امید ہیں۔