واشنگٹن —
نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) نے 2012ء میں لاکھوں کی تعداد میں ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ اِکٹھا کیا، جِس میں سے حکومت ِامریکہ نے صرف 300مخصوص فون نمبروں کی تفصیلی چھان بین کی تھی۔
یہ بات ہفتے کے روز رائٹرز کو موصول ہونے والی ایک سرکاری دستاویز میں کہی گئی ہے، جس بنیاد پر خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری ہونے والی ایک اخباری رپورٹ اتوار کو پرنٹ میڈیا میں شائع ہوئی۔
بتایا گیا ہے کہ خفیہ قرار دی گئی یہ دستاویز ہفتے کے ہی روز حکومت نے امریکی خفیہ اداروں کو جاری کی تھی، جس کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ خفیہ اداروں اور اوباما انتظامیہ اس سلسلے میں لگنے والے الزامات کا توڑ کر سکیں، اور یہ بات نہیں کہ امکانی پُرتشدد سازشوں کی تفتیش کرتے ہوئے، کسی طور پر، حد سے تجاوز کا ارتکاب ہوا۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ’این ایس اے‘ کی طرف سے اِی میل اور ٹیلی فون ڈیٹا کی مدد سے امریکی حکام نے ایک افغان تارک وطن، نجیب اللہ زازی کا پتا لگایا، جسے 2009ء میں نیو یارک سٹی کے سب وے نظام کو بم سے اُڑانے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
نجیب اللہ زازی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہیں اور وہ اقبالِ جرم کر چکا ہے۔
ادھر، اخبار ایکسپریس ٹربیون نے رائٹرز کی اِسی رپورٹ کے حوالے سے تفصیل شائع کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کارندوں کی اِی میلز کی ’این ایس اے‘ کی طرف سے کی جانے والی نگرانی کے نتیجے میں حکام کو امریکہ میں ایک نا معلوم فرد کا پتا لگا، جو، حکومتی دستاویز کے مطابق، ’دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کی کوشش کر رہا تھا‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں، این ایس اے نے ایک ادھوری اطلاع ایف بی آئی کو روانہ کی، جس نے زازی کی شناخت کی، جو اُس وقت کولوراڈو میں رہتا تھا۔ نیو یارک تک تانے بانے کا پتا لگنے کے بعد، ایف بی آئی نے زازی کو حراست میں لیا۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آئی کو مزید معلومات اُس وقت ملی جب زازی کے فون نمبر اور دیگر فون کال ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا، جس سے ایف بی آئی پر کئی راز کھلے۔
اِن میں سے ایک ’لیڈ‘ ادیس مدون جانن کی طرف گئی، جسے سب وے سازش کیس میں گذشتہ برس عمر قید کی سزا ہوئی۔
حالانکہ، این ایس اے کےایک سابق کانٹریکٹر، ایڈورڈ سنوڈن کے ظاہر کردہ انتہائی خفیہ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ادارہ امریکہ میں قائم ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کمپنیوں سے بہت بڑا ریکارڈ اکٹھا کرتا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈیٹا کا یہ حصول قانونی طریقہٴ کار اپناتے ہوئے کیا جاتا ہے، جن کے لیے سخت ضابطوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور یہ کہ کسی طور پر، عام امریکیوں کی ’پرائیسی‘ میں مداخلت نہیں کی جاتی۔
یہ بات ہفتے کے روز رائٹرز کو موصول ہونے والی ایک سرکاری دستاویز میں کہی گئی ہے، جس بنیاد پر خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری ہونے والی ایک اخباری رپورٹ اتوار کو پرنٹ میڈیا میں شائع ہوئی۔
بتایا گیا ہے کہ خفیہ قرار دی گئی یہ دستاویز ہفتے کے ہی روز حکومت نے امریکی خفیہ اداروں کو جاری کی تھی، جس کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ خفیہ اداروں اور اوباما انتظامیہ اس سلسلے میں لگنے والے الزامات کا توڑ کر سکیں، اور یہ بات نہیں کہ امکانی پُرتشدد سازشوں کی تفتیش کرتے ہوئے، کسی طور پر، حد سے تجاوز کا ارتکاب ہوا۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ’این ایس اے‘ کی طرف سے اِی میل اور ٹیلی فون ڈیٹا کی مدد سے امریکی حکام نے ایک افغان تارک وطن، نجیب اللہ زازی کا پتا لگایا، جسے 2009ء میں نیو یارک سٹی کے سب وے نظام کو بم سے اُڑانے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
نجیب اللہ زازی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہیں اور وہ اقبالِ جرم کر چکا ہے۔
ادھر، اخبار ایکسپریس ٹربیون نے رائٹرز کی اِسی رپورٹ کے حوالے سے تفصیل شائع کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کارندوں کی اِی میلز کی ’این ایس اے‘ کی طرف سے کی جانے والی نگرانی کے نتیجے میں حکام کو امریکہ میں ایک نا معلوم فرد کا پتا لگا، جو، حکومتی دستاویز کے مطابق، ’دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کی کوشش کر رہا تھا‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں، این ایس اے نے ایک ادھوری اطلاع ایف بی آئی کو روانہ کی، جس نے زازی کی شناخت کی، جو اُس وقت کولوراڈو میں رہتا تھا۔ نیو یارک تک تانے بانے کا پتا لگنے کے بعد، ایف بی آئی نے زازی کو حراست میں لیا۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آئی کو مزید معلومات اُس وقت ملی جب زازی کے فون نمبر اور دیگر فون کال ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا، جس سے ایف بی آئی پر کئی راز کھلے۔
اِن میں سے ایک ’لیڈ‘ ادیس مدون جانن کی طرف گئی، جسے سب وے سازش کیس میں گذشتہ برس عمر قید کی سزا ہوئی۔
حالانکہ، این ایس اے کےایک سابق کانٹریکٹر، ایڈورڈ سنوڈن کے ظاہر کردہ انتہائی خفیہ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ادارہ امریکہ میں قائم ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کمپنیوں سے بہت بڑا ریکارڈ اکٹھا کرتا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈیٹا کا یہ حصول قانونی طریقہٴ کار اپناتے ہوئے کیا جاتا ہے، جن کے لیے سخت ضابطوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور یہ کہ کسی طور پر، عام امریکیوں کی ’پرائیسی‘ میں مداخلت نہیں کی جاتی۔