واشنگٹن —
متوقع طور پر، امریکی حکومت ’نیشنل سکیورٹی ایجنسی‘ کے بارے میں ایک جج کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی، جس میں جج نے ادارے کی طرف سے لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون ریکارڈز کو خفیہ اکٹھا کرنے کے اقدام کو ’ممکنہ طور پرغیر قانونی عمل‘ قرار دیا تھا۔
اِس فیصلے کے بعد، نگرانی کے امریکی پروگرام کی قانونی حیثیت کے بارے میں نئی بحث چِھڑ گئی ہے۔
نیشنل سکیورٹی کے ایک سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن، جس نے روس میں سیاسی پناہ لینے سے قبل جاسوسی کے امریکی ادارے کے بارے میں بیشمار دستاویزات کا انکشاف کیا تھا، اس فیصلے کو سراہا ہے۔ تاہم، نیشنل سکیورٹی سے متعلق دو ماہرین نے منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ بالآخر، عدالتیں حکومت کے نگرانی کے پروگرام کے حق میں ہی فیصلہ دیں گی۔
رابرٹ ٹرنر ’یونیورسٹی آف ورجینیا‘ کے’سینٹر فور نیشنل سکیورٹی‘ سے وابستہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 1979ء میں امریکی عدالت عظمیٰ کی طرف سے ٹیلی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جو ابھی بھی برمحل ہے، حالانکہ اُس وقت تک موبائل فون ایجاد نہیں ہوا تھا، نہی تب تک دنیا بھر میں اس کے وسیع تر استعمال کے بارے میں کسی نے سوچا تھا۔
اُنھوں نے حکومت کی طرف سےٹیلی فون ریکارڈ جمع کرنے کے محدود عمل کا ذکر کیا، جس میں وہ نمبر جن کو فون کیا گیا، گفتگو کی طوالت اور تاریخ شامل ہے، لیکن اس میں گفتگو کے مندرجات شامل نہیں، جب کہ ہوائی اڈوں پر مسافروں کی تلاشی کا معاملہ زیادہ دخل اندازی کی نوعیت کا ہوتا ہے۔
اِس قسم کی جامہ تلاشی کو پہلے ہی جائز قرار دیا گیا ہے، جنھیں امریکی قانون کی خلاف ورزی سے تعبیر نہیں کیا جاتا، جو شہریوں کی غیر قانونی تلاشی کی ممانعت کرتا ہے۔
ڈیوڈ پوزن نیو یارک میں ’کولمبیا یونیورسٹی لا اسکول‘ سے وابستہ قومی سلامتی کے ماہر ہیں۔ اُنھوں نے بھی پیر کے روز کہا کہ شاید جج رچرڈ لیون کی طرف سے دیے جانے والے فیصلے کی کوئی اعلیٰ عدالت توثیق نہ کرے۔ لیکن، یہ فیصلہ دیگر قانونی مقدمات اور امریکی نگرانی کے پروگرام کے دائرے کے بارے میں قانون سازوں کی سوچ پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
اپنے فیصلے میں، جج لیون نے کہا کہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کسی پیشگی عدالتی منظوری کی عدم موجودگی میں حکومت ایسی اطلاعات جمع کرکے شہریوں کی رازداری کے حق پر ’من مانی کرتے ہوئے، بلاامتیاز دھاوا بول سکتی ہے‘۔
نگرانی کے پروگرام کو چیلنج کرنے کے مقدمے میں عدالت کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں، لیون نے کہا تھا کہ امریکی آئین میں ’یقینی طور پر‘ جاسوسی غلط ہے، کیونکہ امریکی آئین میں کسی طرح کی غیر قانونی تلاشی پر ممانعت ہے۔
فیصلے میں، لیون نے حکم نامے پر فوری عمل درآمد پر زور نہیں دیا، جس کے باعث حکومت کو کسی اعلیٰ عدالت میں اپیل میں جانے کا موقع ملا۔
ادھر، منگل کو امریکی صدر براک اوباما ٹیکالوجی کے سرکردہ اداروں کے سربراہوں سے ملاقات کر رہے ہیں، جو نگرانی کے امریکی پروگراموں کے دائرے کار کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں، مسٹر اوباما گوگل، یاہو، ایپل اور اے ٹی اینڈ ٹی کے سربراہاں سے مل کر رازداری کے حق سے متعلق اُن کی تشویش کے ساتھ ساتھ حکومت کے ’ہیلتھ کیئر ڈاٹ گو‘ ویب سائٹ کو بہتر بنانے کے طریقہ کار پر غور کریں گے۔
اِس فیصلے کے بعد، نگرانی کے امریکی پروگرام کی قانونی حیثیت کے بارے میں نئی بحث چِھڑ گئی ہے۔
نیشنل سکیورٹی کے ایک سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن، جس نے روس میں سیاسی پناہ لینے سے قبل جاسوسی کے امریکی ادارے کے بارے میں بیشمار دستاویزات کا انکشاف کیا تھا، اس فیصلے کو سراہا ہے۔ تاہم، نیشنل سکیورٹی سے متعلق دو ماہرین نے منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ بالآخر، عدالتیں حکومت کے نگرانی کے پروگرام کے حق میں ہی فیصلہ دیں گی۔
رابرٹ ٹرنر ’یونیورسٹی آف ورجینیا‘ کے’سینٹر فور نیشنل سکیورٹی‘ سے وابستہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 1979ء میں امریکی عدالت عظمیٰ کی طرف سے ٹیلی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جو ابھی بھی برمحل ہے، حالانکہ اُس وقت تک موبائل فون ایجاد نہیں ہوا تھا، نہی تب تک دنیا بھر میں اس کے وسیع تر استعمال کے بارے میں کسی نے سوچا تھا۔
اُنھوں نے حکومت کی طرف سےٹیلی فون ریکارڈ جمع کرنے کے محدود عمل کا ذکر کیا، جس میں وہ نمبر جن کو فون کیا گیا، گفتگو کی طوالت اور تاریخ شامل ہے، لیکن اس میں گفتگو کے مندرجات شامل نہیں، جب کہ ہوائی اڈوں پر مسافروں کی تلاشی کا معاملہ زیادہ دخل اندازی کی نوعیت کا ہوتا ہے۔
اِس قسم کی جامہ تلاشی کو پہلے ہی جائز قرار دیا گیا ہے، جنھیں امریکی قانون کی خلاف ورزی سے تعبیر نہیں کیا جاتا، جو شہریوں کی غیر قانونی تلاشی کی ممانعت کرتا ہے۔
ڈیوڈ پوزن نیو یارک میں ’کولمبیا یونیورسٹی لا اسکول‘ سے وابستہ قومی سلامتی کے ماہر ہیں۔ اُنھوں نے بھی پیر کے روز کہا کہ شاید جج رچرڈ لیون کی طرف سے دیے جانے والے فیصلے کی کوئی اعلیٰ عدالت توثیق نہ کرے۔ لیکن، یہ فیصلہ دیگر قانونی مقدمات اور امریکی نگرانی کے پروگرام کے دائرے کے بارے میں قانون سازوں کی سوچ پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
اپنے فیصلے میں، جج لیون نے کہا کہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کسی پیشگی عدالتی منظوری کی عدم موجودگی میں حکومت ایسی اطلاعات جمع کرکے شہریوں کی رازداری کے حق پر ’من مانی کرتے ہوئے، بلاامتیاز دھاوا بول سکتی ہے‘۔
نگرانی کے پروگرام کو چیلنج کرنے کے مقدمے میں عدالت کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں، لیون نے کہا تھا کہ امریکی آئین میں ’یقینی طور پر‘ جاسوسی غلط ہے، کیونکہ امریکی آئین میں کسی طرح کی غیر قانونی تلاشی پر ممانعت ہے۔
فیصلے میں، لیون نے حکم نامے پر فوری عمل درآمد پر زور نہیں دیا، جس کے باعث حکومت کو کسی اعلیٰ عدالت میں اپیل میں جانے کا موقع ملا۔
ادھر، منگل کو امریکی صدر براک اوباما ٹیکالوجی کے سرکردہ اداروں کے سربراہوں سے ملاقات کر رہے ہیں، جو نگرانی کے امریکی پروگراموں کے دائرے کار کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں، مسٹر اوباما گوگل، یاہو، ایپل اور اے ٹی اینڈ ٹی کے سربراہاں سے مل کر رازداری کے حق سے متعلق اُن کی تشویش کے ساتھ ساتھ حکومت کے ’ہیلتھ کیئر ڈاٹ گو‘ ویب سائٹ کو بہتر بنانے کے طریقہ کار پر غور کریں گے۔