واشنگٹن —
امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کےمطابق اوباما انتظامیہ نے مصر کو دی جانے والی فوجی امداد کا 'کچھ حصہ' معطل کردیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق سینیٹر پیٹرک لیہے کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اوباما انتظامیہ نے سینیٹر لیہے کو امداد کی معطلی کی اطلاع دی ہے۔
ورمونٹ سے منتخب ڈیموکریٹ سینیٹر لیہے امریکی سینیٹ کی اس سب کمیٹی کے سربراہ ہیں جو محکمہ خارجہ اور بیرونِ ملک امریکی مفادات اور سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
اس سے قبل اوباما انتظامیہ کے بعض عہدیداران نے عندیہ دیا تھا کہ مصر میں جاری خون ریزی اور مظاہرین کے خلاف فوجی کاروائیوں کے ردِ عمل میں امریکہ مصر کو دی جانے والی سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد پر نظرِ ثانی کرے گا۔
مصر کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتِ حال اور مظاہرین کے خلاف سکیورٹی اداروں کی پرتشدد کاروائیوں کے ردِ عمل میں یورپی یونین کے حکام بھی مصر کو دی جانے والی امداد کی معطلی یا کٹوتی پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم مغربی ممالک کے ردِ عمل کے برعکس سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ مغربی امداد کی معطلی کی صورت میں وہ اور دیگر خلیجی عرب ریاستیں مصر کی مدد کریں گی۔
یاد رہے کہ تین جولائی کو مصر کی فوج کی جانب سے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سعودی عرب اس اقدام کی حمایت کرنےو الا پہلا ملک تھا۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ممالک محمد مرسی کی حکومت کی جگہ اقتدار میں آنے والی عبوری انتظامیہ کو ملک کی معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پہلے ہی 12 ارب ڈالر کی مشترکہ امداد دینے کا اعلان کرچکے ہیں جس کا حجم امریکہ اور یورپی امداد سے کہیں زیادہ ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ملک کے وزیرِ خارجہ شہزادہ سعودالفیصل کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے "مصر کی امداد بند کرنے کا اعلان کرنے والوں سے متعلق گہری تشویش " ظاہر کی ہے۔
بیان میں سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ "عرب اور مسلمان ریاستیں افرادی قوت اور صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور وہ مصر کی مدد کریں گی"۔
امریکہ کا قانون وفاقی انتظامیہ کو کسی بھی ایسے ملک کو دی جانے والی امداد بند کرنے کا پابند بناتا ہے جہاں منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی ہو۔
تاہم مصر میں گزشتہ ماہ فوج کے ہاتھوں منتخب حکومت کی برطرفی اور محمد مرسی کے سیکڑوں حامیوں کی فوج اور پولیس کی کاروائیوں میں مسلسل ہلاکتوں کے باوجود اوباما انتظامیہ کا موقف ہے کہ وہ اب تک یہ تعین نہیں کرسکی کہ آیا محمد مرسی کے خلاف ہونے والے فوجی اقدام کو بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
اوباما انتظامیہ کے اس مبہم موقف کے باعث اب تک مصر کو دی جانے والی امریکی امداد معطل نہیں ہوسکی ہے جس پر کئی عالمی رہنما اور انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیمیں کڑی تنقید کر رہی ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق سینیٹر پیٹرک لیہے کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اوباما انتظامیہ نے سینیٹر لیہے کو امداد کی معطلی کی اطلاع دی ہے۔
ورمونٹ سے منتخب ڈیموکریٹ سینیٹر لیہے امریکی سینیٹ کی اس سب کمیٹی کے سربراہ ہیں جو محکمہ خارجہ اور بیرونِ ملک امریکی مفادات اور سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
اس سے قبل اوباما انتظامیہ کے بعض عہدیداران نے عندیہ دیا تھا کہ مصر میں جاری خون ریزی اور مظاہرین کے خلاف فوجی کاروائیوں کے ردِ عمل میں امریکہ مصر کو دی جانے والی سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد پر نظرِ ثانی کرے گا۔
مصر کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتِ حال اور مظاہرین کے خلاف سکیورٹی اداروں کی پرتشدد کاروائیوں کے ردِ عمل میں یورپی یونین کے حکام بھی مصر کو دی جانے والی امداد کی معطلی یا کٹوتی پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم مغربی ممالک کے ردِ عمل کے برعکس سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ مغربی امداد کی معطلی کی صورت میں وہ اور دیگر خلیجی عرب ریاستیں مصر کی مدد کریں گی۔
یاد رہے کہ تین جولائی کو مصر کی فوج کی جانب سے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سعودی عرب اس اقدام کی حمایت کرنےو الا پہلا ملک تھا۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ممالک محمد مرسی کی حکومت کی جگہ اقتدار میں آنے والی عبوری انتظامیہ کو ملک کی معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پہلے ہی 12 ارب ڈالر کی مشترکہ امداد دینے کا اعلان کرچکے ہیں جس کا حجم امریکہ اور یورپی امداد سے کہیں زیادہ ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ملک کے وزیرِ خارجہ شہزادہ سعودالفیصل کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے "مصر کی امداد بند کرنے کا اعلان کرنے والوں سے متعلق گہری تشویش " ظاہر کی ہے۔
بیان میں سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ "عرب اور مسلمان ریاستیں افرادی قوت اور صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور وہ مصر کی مدد کریں گی"۔
امریکہ کا قانون وفاقی انتظامیہ کو کسی بھی ایسے ملک کو دی جانے والی امداد بند کرنے کا پابند بناتا ہے جہاں منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی ہو۔
تاہم مصر میں گزشتہ ماہ فوج کے ہاتھوں منتخب حکومت کی برطرفی اور محمد مرسی کے سیکڑوں حامیوں کی فوج اور پولیس کی کاروائیوں میں مسلسل ہلاکتوں کے باوجود اوباما انتظامیہ کا موقف ہے کہ وہ اب تک یہ تعین نہیں کرسکی کہ آیا محمد مرسی کے خلاف ہونے والے فوجی اقدام کو بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
اوباما انتظامیہ کے اس مبہم موقف کے باعث اب تک مصر کو دی جانے والی امریکی امداد معطل نہیں ہوسکی ہے جس پر کئی عالمی رہنما اور انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیمیں کڑی تنقید کر رہی ہیں۔