رسائی کے لنکس

شام میں مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری


شام میں مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری
شام میں مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری

شام میں حکومت کی جانب سے ٕ مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ امریکہ کے سفیر رابرٹ فورڈ نے چند روز پہلے دمشق میں شام کے وزیر خارجہ ولید معلم سے ملاقات کی ۔ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اس ملاقات کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ نے واضح کیا ہے کہ اسے اسد حکومت کی جانب سے مظاہرین پر تشدد قبول نہیں۔

واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نئر ایسٹ پالیسی سے منسلک مشرق وسطیٰ کے امورکے ماہراینڈریو ٹابلرکہتے ہیں کہ اس سلسلے میں شام پر تیل برآمد کرنے پہ پابندی بے حد اہم ہوگی۔

ان کا کہناہے کہ شام کی ایک چوتھائی سے ایک تہائی آمدن تیل کی برآمدات پر مشتمل ہے ۔ عراق کے برعکس جہاں زیادہ تر آمدن تیل سے آتی تھی شام میں یہ تقریباً ایک تہائی ہے۔ تیل کی برآمدات پر پابندی سے شام کی حکومت کے وسائل پر دباؤ پڑے گا اور اسے سرمایہ دار طبقے سے قرض لینا پڑے گا ۔ مگراس کا معاشرے پر کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔

اینڈریو کہتے ہیں کہ سن 2005 میں عالمی دباؤ کی وجہ سے شام لبنان سے اپنی افواج نکالنے پر مجبور ہوا تھا۔

کچھ تجزیہ کاروں جیسے لندن میں اسٹرٹیجک ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن سینٹرکے ڈائریکٹر اسامہ موناجدکا خیال ہے کہ امریکہ کو ان عناصر پر دباؤ ڈالنا چاہیے جو شام کی حکومت میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک واضح پیغام سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے کاروباری حضرات کو دیا جانا چاہیے ۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں کاروبار کے بہت زیادہ مواقع پیدا ہونگے۔

دمشق میں واقع انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک ادارے کے سربراہ رضوان زیادے کہتے ہیں کہ صدر براک اوباما کو واضح طور پر مطالبہ کرنا چاہیے کہ بشار الاسد اقتدار چھوڑ دیں۔

بشار الاسد کا خاندان علاوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے جو شام میں ایک اقلیت ہے۔شام کے لیئے امریکہ کے سابق سفیر تھیوڈورکاٹووکہتے ہیں کہ صدر اسد اقتدار نہیں چھوڑیں گے اور ان کے خاندان کے لوگ اپنی سیاسی ساکھ اور روزگار برقرا ررکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

سابق سفیر کہتے ہیں کہ اس وقت ایسا کوئی آسان طریقہ نہیں جو جلد اسد حکومت کو گر ا سکے۔

XS
SM
MD
LG