شام میں امریکہ کے سفیر، اور امریکہ میں شام کے سفیر، دونوں کو اپنے اپنے ملکوں کے دارالحکومتوں میں واپس بلا لیا گیا ہے ۔ دونوں ملکوں کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ انہیں صلاح و مشورے کے لیے واپس بلایا گیا ہے۔ لیکن امریکی محکمۂ خارجہ کے عہدے داروں نے کہا ہے سفیر فورڈ کو واپس بلانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سلامتی کو قابلِ اعتبار خطرات درپیش تھے ۔
پیر کے روز واشنگٹن میں ، امریکی محکمۂ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے اس بات پر زور دیا کہ فورڈ کی واشنگٹن واپسی کا مطلب مستقل واپسی نہیں ہے ۔ انھوں نے شام کی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے امریکی سفارتکار کو بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی تھی ۔ انھوں نے کہا’’ہمیں اشتعال انگیزی کی اس مہم کے بارے میں تشویش ہے جس کے تحت حکومت شام کی طرف سے سرکاری میڈیا پر سفیر فورڈ کی ذات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور اس سے سیکورٹی کی جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی ، وہ ہمارے لیے تشویش کا باعت تھی۔‘‘
نولینڈ نے کہا کہ توقع ہے کہ فورڈ صلاح و مشورے کے بعد دمشق واپس چلے جائیں گے ، اگرچہ ان کی واپسی کے وقت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ جب فورڈ واپس جائیں گے تو شام کی حکومت کو ان کی سیکورٹی کا بندوبست کرنا ہوگا۔
فورڈ کو جنوری میں شام میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا گیا تھا ۔ وہ کہنہ مشق سفارتکار ہیں اور گزشتہ عشرے کے دوران، الجزائر، بحرین اور عراق میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
بروکنگز دوحا سنٹر کے ڈائریکٹر، سلمان شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام کے میڈیا نے، عراق میں سفیر فورڈ کے کام کو منفی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔’’میرے خیال میں اس کوشش کا مقصد ا ن کا تعلق فرقہ وارانہ مسئلے سے قائم کرنا ہے۔ عراق میں جو فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہوئے تھے ، یہ ان کو شام کے فرقہ وارانہ مسائل سے جوڑنے کی کوشش ہے ۔‘‘
فورڈ سیاسی مخالفین کے خلاف شامی حکومت کی پُر تشدد کارروائیوں پر تنقید میں ، پیش پیش رہے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ مارچ میں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تحریک شروع ہونے کے بعد سے اب تک، 3,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فورڈ کے رویے پر شام کی حکومت اور اس کے حامیوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ گذشتہ مہینے، جب وہ دمشق میں حزبِ اختلاف کے ایک ممتاز رکن سے ملنے کی تیاری کر رہے تھے، تو غصے سے بپھرے ہوئے ایک ہجوم نے انہیں گھیر لیا۔ جب فورڈ اور فرانسیسی سفیر حما کے مکینوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے وہاں گئے، تو اس کے بعد شام کی حکومت نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت غیر ملکی سفیروں کی نقل و حرکت پر بعض پابندیاں لگا دی گئی ہیں ۔
شیخ کہتے ہیں کہ شام کے اندر کے حالات کے چشم دید گواہ کی حیثیت سے ، فورڈ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کی روانگی سے شام کی حزبِ اختلاف کو دھچکا لگے گا۔
تا ہم، وہ کہتے ہیں کہ شام کے اندر اور بیرونی ملکوں میں، شام کی حکومت کے مخالف عناصر کے ساتھ، امریکہ اور بین ا لاقوامی برادری کے دوسرے ارکان کے تعلقات قائم ہیں ۔ ’’سفیر فورڈ کا شام سے چلے جانا اہم تو ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حزب ِ اختلاف کے ساتھ کام کر نے کی تمام کوششیں ختم ہو جائیں گی ۔ یہ صحیح ہے کہ شام کی حکومت اور امریکہ کے ساتھ براہ راست رابطے کا ایک ذریعہ کم ہو جائے گا ۔ اور میرے خیال میں، اس کے نتیجے میں ان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ کی نولینڈ کہتی ہیں کہ مسٹر اسد کے ساتھ ہمارا رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور شام کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہیں، صدر اوباما سمیت امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ صدر اسد کو اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئیے۔ شیخ کہتے ہیں کہ شاید سفیروں کی واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔
’’امریکہ اور شام میں اسد حکومت ، سفارتی ٹکراؤ کی راہ پر چلتے رہے ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سفیر فورڈ کو شام چھوڑنے میں اتنا وقت لگ گیا، کیوں کہ ان پر کافی عرصے سے دباؤ پڑ رہا تھا، اور ظاہر ہے کہ شامیوں کو عماد مصطفیٰ کو واشنگٹن سے واپس بلانے کی جوابی کارروائی تو کرنی تھی۔‘‘
سفیروں کی غیر حاضری کے باوجود، شام میں امریکی سفارت خانے اور امریکہ میں شامی سفارت خانے میں عملہ موجود ہے اوروہاں کام جاری ہے ۔