امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک سمجھوتا طے پا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان ایک ہفتے تک پرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں گے جس کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔
یہ بات جمعے کو امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتائی۔ اہلکار نے خبردار کیا کہ معاہدہ جاری رکھنے کے لیے لازم ہوگا کہ طالبان اپنی یقین دہانی کی پاسداری کریں۔ اس اعلان سے پہلے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے مذاکرات جاری رہے۔
سمجھوتے کے نتیجے میں امکان ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوج کی خاصی تعداد میں وطن واپسی کی راہ ہموار ہو گی۔ اس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک میں سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے جنہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران "لامتناہی جنگیں" ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اگلے نومبر میں دوبارہ انتخاب لڑ رہے ہیں۔
جمعہ کو میونخ میں ہونے والی سیکورٹی کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات ہوئی۔
میونخ میں امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ گزشتہ ستمبر میں سمجھوتے پر اس لیے دستخط نہیں ہو سکے تھے کیوں کہ تشدد کی کارروائیاں تیز ہو گئی تھیں۔ اب ہم نے سمجھوتا کیا ہے جس میں تشدد کی کارروائی میں کمی کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اگر طالبان سمجھوتے پر عمل درآمد کرتے ہیں تو ہم آگے بڑھیں گے۔
اہلکار نے کہا کہ امریکی فوج کی تعداد میں کمی کی ہماری یقین دہانی بھی مشروط ہے اور یہ معاملہ مرحلہ وار نوعیت کا ہو گا۔ اس کا دار و مدار وعدوں پر عمل درآمد سے مشروط ہو گا۔
افغانستان میں اس وقت تقریباً 13000 امریکی فوجیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر نیٹو اہلکار تعینات ہیں۔ ایک مغربی سفارت کار نے سال کے اوائل میں خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ امریکہ اپنی فوج کی تعداد کو تقریباً 9000 تک لانے کا خواہاں ہے۔
اگر سات دنوں تک تشدد کی کارروائیوں میں کمی رہی تو امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہو جائیں گے، جسے بین الافغان مکالمے کا نام دیا گیا ہے۔