امریکہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ امریکہ ان ممالک میں القاعدہ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گا جو دہشت گردوں کے خلاف از خود کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا اس پر آمادہ نہیں ہیں۔
یہ بیان 'وائٹ ہاؤس' کے سینئر مشیر برائے انسدادِ دہشت گردی اور داخلی سلامتی جان برینن نے جمعہ کو 'ہارورڈ لاء اسکول' میں خطاب کرتے ہوئے دیا۔
برینن کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ نہیں سمجھتا کہ اسے القاعدہ کے خلاف اپنی فوجی طاقت کا استعمال صرف افغانستان جیسے گرم محاذِ جنگ تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔
تاہم امریکی عہدیدار نے وضاحت کی کہ امریکہ اپنی خواہش کے مطابق "ہرجگہ اور ہروقت" اپنی فوجی طاقت استعمال نہیں کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "جنگوں سے متعلق قوانین اور ریاستوں کی خود مختاری کی روایات جیسے بین الاقوامی قانونی اصول" امریکہ کی یک طرفہ فوجی کارروائی کی صلاحیت اور بیرونِ ملک طاقت کے استعمال پر اہم قدغنیں عائد کرتے ہیں۔
برینن نے اپنے خطاب میں امریکی انتظامیہ کے ناقد اُن اراکینِ کانگریس کا بھی تذکرہ کیا جو دہشت گردی کے تمام ملزمان کے ساتھ "دشمن جنگجوؤں" کا سا رویہ اختیار کرنے اور ان کے خلاف شہری عدالتوں میں مقدمات چلانے کے بجائے انہیں فوجی تحویل میں رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔
جان برینن کا کہنا تھا کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کی اس سوچ پر "شدید تشویش" میں مبتلا ہیں کیوں کہ ان کے بقول ایسا کرنا امریکی روایات اور قانونی اصولوں کو خیرباد کہنے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس مطالبے پر عمل درآمد کو نہ صرف عدالتوں اور امریکی عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اشد ضروری بین الاقوامی تعاون پر بھی اثر پڑے گا۔