پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو نازک سا رشتہ قائم ہے وہ بدستور کشیدگی کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال جو اس سال کے شروع میں اس حملے کے بعد پیدا ہوئی جس میں امریکی کمانڈوز نے اسامہ بن لادن کو جو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں چھپا ہوا تھا، ہلاک کر دیا۔
امریکہ میں اس واقعے کے بعد پاکستان کی دوستی کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے، اور بہت سے پاکستانی اس بات پر ناراض ہوئے کہ امریکہ نے پاکستان کی سر زمین پر یکطرفہ کارروائی کی۔
لیکن پاکستان میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے ایک انٹر ویو میں وائس آف امریکہ سے کہا کہ دونوں ملکوں کو ایک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد رہنا چاہیئے۔’’یہاں ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا واسطہ انتہائی بے رحم لوگوں سے ہے جو پاکستان میں ایسی چیز لا رہے ہیں جو پاکستان بالکل نہیں چاہتا ، بالکل اسی طرح جیسے امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس پر نائن الیون کا حملہ ہو۔ پاکستان اس قسم کے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر نہیں چاہتا ۔ یہ لوگ ان دہشت گردوں کو یہاں لا رہے ہیں تا کہ ہمارے درمیان فاصلہ ہو جائے ۔ وہ یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے۔‘‘
جب امریکہ نے افغانستان میں فوجی کارروائی شروع کی ، تو اس نے خود کو کہیں زیادہ بڑے، اور مشکل علاقائی مسئلے میں الجھا لیا۔
بر صغیر کا سب سے بڑا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات ہیں۔ 60 سال قبل جب یہ دونوں ملک وجود میں آئے،اس کے بعد سے اب تک ان کے درمیان چار جنگیں اور بے شمار چھوٹی موٹی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی مغربی سرحد سے دونوں ملکوں میں آنا جانا آسان ہے اور اس سرحد کو کنٹرول کرنا تقریباً نا ممکن ہے ۔ ایک برطانوی مدبر نے انیسویں صدی میں خود جو سرحد مقرر کی تھی اس متنازع سرحد کے دونوں طرف پشتون نسل کے لوگ رہتے ہیں۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر، ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ واشنگٹن نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجنے کے ممکنہ نتائج کو اچھی طرح سمجھا نہیں۔’’میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان پر افغانستان میں دس سال کی جنگی کارروائیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان کارروائیوں سے نہ صرف جنگ طول پکڑ گئی جس سے یہ علاقہ غیر مستحکم ہو گیا، بلکہ اس سے خود امریکہ کے اپنے مقاصد کو نقصان پہنچا۔ کیوں کہ امریکہ القاعدہ اور طالبان میں تمیز نہیں کر سکا ، اس لیے وہ ان دونوں سے الگ الگ نہیں نمٹ سکا ۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے، اور جس انداز سے یہ لڑی گئی، اس کا سرحدی علاقہ بری طرح جنگ میں گِھر گیا۔‘‘
جب 2001 میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج افغانستان پہنچیں، تو طالبان، القاعدہ اور دوسرے باغی فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے۔
اور جب پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا، تو ان قبائلی علاقوں کے بہت سے جنگجوؤں نے طے کیا کہ ان کے لیے پاکستان کی فوج اور حکومت کو نشانہ بنانا جائز ہے ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی فوج نے بعض باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ لیکن انھوں نے بعض کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ان میں حقانی نیٹ ورک قابلِ ذکر ہے جو طالبان اور القاعدہ دونوں کے ساتھ منسلک ہے۔
امریکہ نے جوابی کارروائی کے طور پر پاکستان کے اندر ،بغیر پائلٹ والے جہازوں، یعنی ڈرونز سے حملے شروع کر دیے۔ اس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات مشتعل ہوئے ۔ بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ امریکہ ان کے ملک کے خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔
لیکن سفیر منٹر کہتے ہیں کہ گذشتہ دس برسوں سے دونوں ملک متحد رہےہیں اور انہوں نے ایک ساتھ مصائب برداشت کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مشترکہ تجربے کے بعد، انہیں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہنا چاہئیے۔’’دونوں ملک مضبوطی سے ڈٹے رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے تعلقات کے لیے نیک فال ہے ۔ دونوں ملکوں نے نقصانات برداشت کیے ہیں، اور لوگوں نے جو قربانیاں دی ہیں، ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن ابھی بڑی سنگین مشکلات باقی ہیں، اور ان کا سامنا کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعلق برقرار رکھیں گے ۔‘‘
تاہم اس تعلق کے دونوں فریقوں کے ذہنوں میں سوالات موجود ہیں۔ چاہے امریکی کانگریس ہو جہاں پاکستان کی امداد ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے، یا پاکستان ، جہاں لوگ ناراض ہیں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، فی الحال ان دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد برقرار ہے ۔
پھر بھی حاصلِ کلام یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلق پر وہی بات صادق آتی ہے جو اکثر عام زندگی میں کہی جاتی ہے، یعنی یہ کہ اس رشتے کو دشواریوں کے باجود قائم رکھنا بہتر ہے، بجائے اس کے کہ طلاق اور جگ ہنسائی کی نوبت آئے ۔