اسامہ بن لادن بین الاقوامی دہشت گردی کی علامت تھا اور 1980 کی دہائی میں اس کے مالی وسائل کو مجاہدین نے افغانستان پر سوویت قبضے کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ امریکہ پر گیارہ ستمبر ، 2001 کے حملوں کے بعد، بن لادن ایک عالمگیر علامت بن گیا جس کے ذریعے القاعدہ اور جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اس سے منسلک تنظیموں کے لیئے پیسے جمع کیے جاتے تھے۔ امریکی محکمۂ خزانہ میں دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے سابق انڈر سیکرٹری اسیورٹ لیوی آج کل کونسل آن فارن ریلیشنز سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’القاعدہ میں نئے رکن بھرتی کرنے اور القاعدہ کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے جوش و جذبہ اسامہ بن لادن سے ہی ملتا تھا۔ اب وہ ایک ولولہ انگیز شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ القاعدہ کو بیشتر فنڈز سعودی عرب، کویت، قطر، اور متحدہ عرب امارات میں مالدار افراد سے عطیات کی شکل میں ملتے ہیں۔ان ملکوں کی حکومتوں نے کوشش کی ہے کہ القاعدہ کو فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ ختم ہو جائے اور ماہرین کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران القاعدہ کو پیسے اکٹھے کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
وہ کہتےہیں کہ ایسی انٹیلی جنس ملی ہے کہ القاعدہ کو اپنے جنگجوؤں کی تربیت اور ان کے گھرانوں کے لیے پیسے جمع کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے میتھیو لیوِٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکی فورسز کے ہاتھوں بن لادن کی موت سے القاعدہ کو مزید کمزور کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔’’یہ ہمارے لیے القاعدہ کی تنظیم کے مختلف پہلوؤں میں، فنڈز جمع کرنے سےلے کر بقیہ تمام سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کا سنہر ی موقع ہے۔‘‘
اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا کہ پاکستان میں حملے کے دوران، امریکی فورسز نے انٹیلی جنس کی ایسی معلومات اکٹھی کی ہیں جن سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد مل سکتی ہے۔ خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق، انہیں کئی کمپیوٹرز، ہارڈ ڈسک ڈرائیوز اور میموری کے دوسرے آلات ملےہیں۔ پیو ریسرچ سنٹرکے ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ حالیہ برسوں میں مسلمان اکثریت والے ملکوں میں اسامہ بن لادن کی مقبولیت میں کافی کمی آئی ہے۔ تجزیہ کار میتھیو لیوٹ کہتےہیں کہ عرب ملکوں میں آنے والے حالیہ انقلابات سے لوگوں کو القاعدہ کے تشدد اور خونریزی کے مقابلے میں زیادہ پُر کشش طریقوں کو پرکھنے کا موقع ملا ہے۔’’چند ہی ہفتوں میں مصر جیسے ملکوں میں نستباً پُر امن انداز سے وہ سب کچھ حاصل کر لیا گیا جو القاعدہ اور اس سے وابستہ لوگ، انتہائی خونریز تشدد کے ذریعے برسوں میں بھی حاصل نہ کر سکے تھے۔‘‘
امریکی محکمۂ خزانہ کے موجودہ اور سابق عہدے دار کہتےہیں کہ اوباما کی موت، القاعدہ کو ملنے والے چندوں میں کمی لانے کی طرف ایک اہم قدم ہے ۔ لیکن اسٹیورٹ لیوی کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں پر دباؤ قائم رکھا جائے۔’’دہشت گردی کے انسداد کی مہم میں بن لادن کی موت زبردست کارنامہ ہے ۔ دہشت گردوں کے لیے مالی وسائل جمع کرنے میں بھی اس سے بہت فرق پڑے گا۔ لیکن جنگ یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ یہ منزل کی طرف ایک اہم سنگ میل ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے میتھیو لیوٹ کہتے ہیں کہ دس سال بعد بن لادن کا کامیابی سے پتہ چلانے سے القاعدہ کو پیسہ دینے والوں کو ایک طاقتور پیغام ملتا ہے۔’’یہ بن لادن کو راستے سے ہٹانے سے کہیں زیادہ اہم بات ہے۔ ہم نے بتا دیا ہے کہ اس میں وقت لگ سکتا ہے لیکن ہم تمہیں ڈھونڈھ نکالیں گے۔ اب لوگ القاعدہ کو پیسہ دینے سے پہلے سوچیں گے کہ وہ اس معاملے میں کس حد تک ملوث ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار کہتےہیں کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے مجبور ہو کر القاعدہ کو فنڈز جمع کرنے کی سرگرمیوں کی مرکزیت ختم کرنی پڑی ہے۔ اب القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کو اپنے فنڈز خود جمع کرنے پڑ رہے ہیں کیو ں کہ انہیں بنیادی تنظیم سے کوئی خاص مدد نہیں مل رہی ہے۔