امریکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کے روز دہشت گردی سے متعلق 2020 کی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں دائیں بازو کی انتہاپسندی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں پاکستان کے ماہرین کی رائے بڑی حد تک مثبت ہے
ڈاکٹر خرم اقبال اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور انسداد دہشت گردی کے امور کے ماہر ہیں۔ اس رپورٹ کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس قسم کی رپورٹوں میں فوکس ہمیشہ اسلامی انتہا پسندی پر ہوتا تھا لیکن اس بار ایک نئی اور مثبت بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بار دائیں بازو کی انتہا پسندی، خاص طور سے یورپ میں، اس کا ایک خطرے کے طور پر اعتراف کیا گیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح اسلامی انتہا پسندی یا یورپ میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کا ذکر کیا گیا ہے اسی طرح ہندوتوا کا بھی ذکر ہونا چاہیے تھا کہ کس طرح ہندو انتہا پسندی ہندوستان جیسے سیکیولر معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اور اس کے علاقائی سیکیورٹی پرکیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
اس رپورٹ کے بارے میں پاکستانی نقطہ نظر سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کا مقابلہ کیا ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ اور بیشتر رپورٹوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اور دہشت گردی پر بہت بڑی حد تک قابو پانے کے باوجود پاکستان میں اب بھی دہشت گردی کے واقعات ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ یا داعش کی سرگرمیوں کا زور ٹوٹا ہے۔ لیکن اس کا دہشت گرد نیٹ ورک اور القاعدہ کے دھڑے افریقہ میں پھیل گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد نہ صرف افغانستان میں داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے وہیں پاکستان کے ملحقہ صوبوں میں بھی خاص طور پر بلوچستان میں داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ نظر آتا ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومت ایک جانب تو تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کر رہی ہے اور دوسری جانب اس کے انسداد دہشت گردی کے ادارے بھی داعش کے خلاف سرگرم ہیں۔ اس لئے آنے والا وقت ہی یہ بتا سکے گا کہ داعش کو اس خطے میں کتنی کامیابی یا ناکامی ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں زیادہ تر حملے مقامی گروہوں کی جانب سے ہوئے ہیں اور داعش کوئی بڑا حملہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی ختم نہ ہونے کا سبب کیا ہے۔ ڈاکٹر خرم نے کہا کہ دہشت گردی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے بارے میں ایک حوالے سے بات کی جا سکے۔ بلکہ اس بارے میں مختلف حوالوں سے بات کرنی ہو گی جیسے ہم جنوبی ایشیا کی بات کریں تو پاکستان میں جو دہشت گردی کے لحاظ سے 2008 اور 2009 میں دنیا کا خطرناک ترین ملک تھا اب وہاں دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا ہے۔
اسی طرح افغانستان کی صورت حال کو مختلف طریقے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔کہ جو سب سے زیادہ حملے کرنے والا گروپ تھا اب وہ خود وہاں برسر اقتدار ہے۔ جہاں تک افریقہ اور بعض دوسرے علاقوں کا تعلق ہے وہاں اگر دیکھا جائے تو گزشتہ ایک عشرے کے دوران دہشت گرد گروہوں کو بعض ملکوں کی جانب اپنے جیو پولیٹیکل مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا جو نیا رجحان سامنے آیا ہے وہ دہشت گردی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ تھی۔
مشرق وسطی میں دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لئے بعض ملکوں نے اپنے اپنے گروپوں کو منظم کیا جس کے نتیجے میں داعش جیسے گروپوں کو شکست تو ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں مذہبی انتہا پسند گروپوں کو فروغ بھی حاصل ہوا۔ جس نے نئی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جنم دیا اور یوں وہ سمجھتے ہیں کہ ان علاقوں میں دہشت گردی میں اضافے کا بڑا سبب اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے دہشت گردوں کو مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کرنا بھی بنا ہے۔
سلمان جاوید، میری ٹائم فورم سے وابستہ دہشت گردی سے متعلق امور کے ایک ماہر ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی دہشت گردی سے متعلق سالانہ رپورٹ کے بارے میں پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں جو کوششیں کی ہیں انہیں سراہا گیا ہے۔ خاص طور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے جہاں پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے لئے سرمایہ کاری روکنے اور اندرون ملک ان گروپوں کے خلاف جنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے،جو اقدامات کئے ہیں ان کی تعریف کی گئی ہے اور اس سے یہ اشارے بھی بقول ان کے ملتے ہیں کہ اب شاید پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد بھی مل سکے گی۔
سلمان جاوید نے کہا کہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار اس بات کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ ابھی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے نہ صرف مزید کام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان بعض ملکوں کو جو دہشت گرد گروپوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، اس بات کے لئے مجبور کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔