امریکی حکام نے اتوار کو آگاہ کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی کے خلاف کئی برس سے جاری اقدامات کو نسل کشی قرار دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن، امریکہ میں ہولوکاسٹ میموریل میوزیم پر ایک تقریب میں اس کا اعلان کریں گے۔
میانمار کے خلاف اس نئے اقدام سے وہاں برسرِ اقتدار فوجی حکومت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ ملک کے مغربی علاقے راخائن میں 2017 سے روہنگیا اقلیت کے خلاف کیے گئے اقدامات پر امریکہ کئی پابندیاں پہلے ہی عائد کر چکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اقدامات کو نسل کشی قرار دینے سے بین الاقوامی سطح پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔
میانمار کی حکومت پہلے ہی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکہ کے قانون ساز پہلے ٹرمپ انتظامیہ اور اب بائیڈن انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ میانمار کی حکومت کے روہنگیا اقلیت کے خلاف اقدامات کو نسل کشی قرار دیں۔
کانگریس کے ایک رکن ڈیموکریٹک سینیٹر جیف مارکلی نے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کو سراہتے ہیں کہ آخر کار روہنگیا افراد کے خلاف کیے گئے مظالم کو نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کا یہ بیان محکمۂ خارجہ کے اس اعلامیے کے فوری بعد سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اینٹنی بلنکن ہولوکاسٹ میوزیم پر گفتگو میں میانمار کے حوالے سے بھی تبادلۂ خیال کریں گے۔ جب کہ ایک نمائش کا بھی دورہ کریں گے جو کہ ’برما نسل کشی کے راستے پر‘ کے نام سے منعقد کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ میانمار کو برما بھی کہا جاتا ہے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر جیف مارکلی کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ اس عزم کا اظہار طویل عرصے سے تعطل کا شکار تھا۔ اس اقدام کے باوجود جابرانہ حکومت کا محاسبہ کرنے کے لیے مزید سخت اور انتہائی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مہاجرین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم 'ریفوجیز انٹرنیشنل' نے بھی امریکہ کی حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ امریکہ کا روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو نسل کشی قرار دینا خوش آئند ہے اور یہ انتہائی بامعنی اقدام ہے۔
خیال رہے کہ میانمار بدھ مت ماننے والوں کا اکثریتی ملک ہے جہاں سے 2017 کے بعد سے لگ بھگ سات لاکھ مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش کے مہاجرین کے کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
میانمار کی روہنگیا اقلیت کے افراد کی نقل مکانی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ملک کی فوج نے 'کلیئرنس آپریشن' شروع کیا تھا۔ فوج نے یہ آپریشن مبینہ باغی گروہ کے حملوں کے بعد شروع کیا تھا۔
میانمار کے سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں پر اجتماعی زیادتیوں، قتل عام اور ہزاروں املاک نذر آتش کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔