وائٹ ہاؤس کی طرف سے عسکریت پسند گروپ بوکو حرام سے لڑنے کے لیے تقریباً 300 امریکی فوجیوں کو کیمرون بھیجنے کے فیصلے پر مبصرین کی طرف سے حمایت کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم ان کی طرف سے اس کی قوت اور محرکات کے بارے میں سوالات بھی اٹھائےجا رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ یہ فوجی کیمرون، نائیجیریا، چاڈ، نائیجر اور بینن کی طرف سے پہلے سے قائم ایک ٹاسک فورس کو انٹیلی جنس اور نگرانی کے متعلق معلومات فراہم کریں گے۔
جبکہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تعیناتی موجودہ خطرے کے مطابق نہیں ہے تاہم کیمرون کے نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک کرسٹوفر فامنیو کا ماننا ہے کہ اس فورس سے ضرور فرق پڑے گا۔
"یہ صرف تعداد کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ وہ مہارت ہے جو 300 فوجی اپنے ساتھ لائیں گے۔۔خاص طور پر ان انتہاپسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کا حاصل کرنا اور اس معلومات کا کیمرون کے فوجیوں کے ساتھ تبادلہ کرنا اور یہ بات یقینی بنانا کہ اس کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ جس سے یقینی طور پر بوکوحرام کو کمزور کیا جا سکے اور اس کی کیمرون کے شہریوں پر حملے کرنے کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے"۔
یاندے یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور حال میں امریکہ میں مقیم سرج یاندو کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ کے فیصلے پر خوشی ہوئی ہے کیونکہ "ان میں سے کوئی بھی ملک اکیلے بوکوحرام سے نہیں لڑ سکتا۔ اگر وہ اپنے تمام تر وسائل کو بھی اکٹھا کر لیں وہ وسائل اس غیر متوازن جنگ لڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں"۔
تاہم ایرک ایج جو کیمرون میں ایک کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں، نے امریکہ کے ارادوں کے بارے میں محتاط اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ ممالک جو ہماری مدد کے لیے آتے ہیں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں"۔
تاہم فامنیو نے کہا کہ کیمرون کے اندر بوکو حرام کے بڑھتے ہوئے حملوں کی صورت میں، "آپ اپنے ہاتھ نہیں باندھ سکتے اور صرف نظریاتی وجوہات پر انحصار کرتے ہوئے یہ کہیں کہ کیمرون براہ راست امداد حاصل نہ کرے۔۔۔اس طرح کی امداد کے بارے میں وقت گزرنے کے ساتھ جان سکتے ہیں کہ اس نئی کوشش سے بوکو حرام کے حملے روکنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے"۔
فامنیو نے یہ بھی کہا کہ کیمرون کی تیزی سے کارروائی کرنے والی ایک بٹالین کو پہلے بھی امریکی امداد مل چکی ہے اور اس اعانت سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو گا۔
دوسری طرف واشنگٹن میں ولسن سینٹر سے وابستہ پبلک پالیسی اسکالر اسٹیو میکڈونلڈ نے کہا کہ وہ امریکی تعیناتی کی حمایت کرتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ امریکہ کی افریقہ میں کمانڈ جو 'افریکام' کے نام سے جانی جاتی ہے عام طور پر اسے اس خطے میں ملے جلے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ افریکام کے اس کردار کے بارے میں ادراک میں اضافہ ہو رہا ہے کہ خاص طور پر اس خطے میں بوکو حرام جیسی کثیر الجہت خطرے کے تناظر میں خطے کی سکیورٹی کو بہتر کرنے میں وہ ادا کر رہی ہے۔
میکڈونلڈ نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ امریکہ اور اس کے علاقائی شراکت دار ایک بہت ہی گہرے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اوران کا حل صرف فوج نہیں ہے بلکہ اس کے لیے وسیع تر عمل کی ضرورت ہے۔