ترکی نے پیر کے روز اُن الزامات پر امریکہ سے وضاحت طلب کی ہے جِن میں کہا گیا ہے کہ وہ 2006ء سے ترکی کے رہنماؤں کی وسیع پیمانے پر جاسوسی کی جا رہی تھی۔
معاون وزیراعظم، بلند ایجوت نے کہا ہے کہ ترکی کے اہل کاروں نے حالیہ دِنوں ترکی میں تعینات اعلیٰ سطحی امریکی سفارتکار، نائب سفیر، جیس بیلی سے ملاقات کی، جس میں جرمن رسالے ’ڈر اسپائیگل‘ میں شائع ہونے والی تازہ رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے ادارے اور برطانیہ کے نگرانی پر مامور ’جی سی ایچ کیو‘ نے ترکی کی ٹیلی فون کالوں کو ٹیپ کیا۔
اجویت نے یہ نہیں بتایا آیا بیلی نے اِن اہل کاروں کو کیا جواب دیا۔
رسالے میں کہا گیا ہے کہ اس کی رپورٹ کی بنیاد وہ دستاویزات ہیں جو امریکی قومی سلامتی کے ایک سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن نے افشا کیے تھے، جو امریکی جاسوسی کے ادارے میں کام کیا کرتا تھے اور ایک برس قبل مبینہ نگرانی کے خفیہ امریکی پروگراموں کے بارے میں تفاصیل پر مبنی ہزاروں دستاویزات صحافیوں کو دیے تھے۔
وہ پہلے ہانگ کانگ بھاگ نکلے تھے جب کہ اُنھوں نے اب روس میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے، جس نے اُسے ملک بدر کرنے سے انکار کیا ہے، حالانکہ سنوڈن پر امریکہ میں جاسوسی کے الزامات پر مقدمے قائم ہیں۔
’ڈر اسپائیگل‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے میں جب امریکہ ترکی کے خلاف جاسوسی کر رہا تھا، ساتھ ہی، نیٹو کے اتحادی کے طور پر، وہ ترکی سے قریبی رابطے میں تھا اور کرد شدت پسندوں کے بارے میں تفصیلی اطلاعات فراہم کرتا رہا ہے، جو جنوب مشرقی ترکی میں مزید خودمختاری کے حصول کے لیے باغیانہ لڑائی لڑ رہے تھے۔
رسالے میں کہا گیا ہے کہ ’این ایس اے‘ کی ایک دستاویز میں ترکی کو دونوں، ’پارٹنر اور امریکہ کے ہدف‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔