امریکہ کے نائب وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ ایران کی خطے اور دنیا کے بارے میں پالیسی میں کسی تبدیلی کا باعث بنتا ہے تو امریکہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کرنے کا خیر مقدم کرے گا۔
بدھ دیر گئے واشنگٹن میں ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کا بنیادی مقصد یا متوقع نتیجہ امریکہ اورایران کے تعلقات کو وسیع سطح پر لانا نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان مذاکرات سے ایران اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ’’بین الاقوامی نظام کے اصول و ضوابط‘‘ کی پاسداری اس کے مفادات کے حصول کے لیے معاون ہو گی تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہو گی۔
بلنکن نے کہا کہ ’’اگر ان مذاکرات سے یہ حاصل ہو گا تو ہم اس پر کام کریں گے۔ ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔‘‘
بلنکن نے یہ بیان اپنے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے دورے سے واپس آنے کے چند دن بعد دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے کے دوران وہ سعودی عرب، اومان اور متحدہ عرب امارات بھی گئے جہاں حکام نے انہیں ایران کا خطے میں عدم استحکام پھیلانے پراپنی تشویش سے آگاہ کیا۔
بلنکن نے کہا کہ اگر ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے امکان کو ختم کر دیا جائے تو اس سے ’’خطے کے لیے عدم استحکام کے ایک بڑے ممکنہ ذریعے کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنا لیتا ہے تو اس کے کچھ ہمسایہ ممالک بھی اسی راہ پر چل نکلیں گے اور اس اقدام سے ان کے بقول ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر علاقائی عدم استحکام ہو گا۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ اس دورے کے دوران مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کچھ اتحادیوں نے یمن میں ایران کے اثرو رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے لڑ رہا ہے۔
’’واضح طور پر ایران صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ کا یہ خیال نہیں ہے کہ ایران اس بحران کو کنٹرول کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا اگر ایران صحیح معنوں میں اس بحران کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے حوثیوں کی امداد اور حمایت ختم کرنا ہو گی اور باغیوں کو سیاسی مذاکرات کی طرف واپس لانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا ہو گا۔
گزشتہ ستمبر میں باغیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سال فروری میں ملک کے صدر عبد ربو منصوری ہادی اس وقت سعودی عرب فرار ہو گئے تھے جب باغی عدن میں ان کی رہاش گاہ کے طرف بڑھ رہے تھے۔