رسائی کے لنکس

پاکستان، بھارت، افغانستان سمیت کئی ملکوں میں مذہبی آزادیوں کا حال غیر تسلی بخش قرار


پاکستان مائنارٹی کونسل کی احتجاجی ریلی (فائل)
پاکستان مائنارٹی کونسل کی احتجاجی ریلی (فائل)

بین الاقوامی مذہبی آزادیوں کا جائزہ لینے والے امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے سال 2022ء کے لیے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ گزشتہ سال مذہبی آزادیوں کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان اور سنٹرل افریقن ری پبلک (کار) میں سال 2021ء میں مذہبی آزادیوں میں سب سے زیادہ تنزلی دیکھی گئی۔ اور پاکستان کا شمار بھی ایسے ملکوں میں کیا گیا ہے جہاں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے خلاف ورزیوں کا گراف مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور جہاں حکومت اقلتیوں کو ہدف بنانے والے گروپوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ رپورٹ میں بھارت میں بھی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو ایسی فہرست میں شامل رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جن کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ باہر کی دنیا میں مذہبی آزادی سے متعلق امریکی حکومت کی جانب سے کوششوں میں اضافہ کیا جائے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سفارشات پر عمل کیا بشمول روس کو مخصوص تشویش والا ملک قرار دینے، اور اس کے مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کے خلاف ہدف والی پابندیاں لگانے جیسے اقدامات اٹھائے ہیں۔

پاکستان میں مذہبی حقوق کی خلاف ورزیاں:

بین الاقوامی مذہبی آزادیوں پر یو ایس کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر سال 2021ء میں بھی مذہبی آزادیوں کا گراف تنزلی کی جانب گامزن رہا۔ یہ سال پاکستان کے اندر ٹارگٹ کلنگ، لوگوں کو زندہ جلائے جانے، ہجوم کے تشدد، جبری تبدیلی مذہب اور عبادتگاہوں اور قبرستانوں میں توڑ پھوڑ جیسے واقعات سے بھرپور رہا۔ خلاف ورزیوں میں مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنایا گیا بشمول جماعت احمدیہ کے لوگوں، مسیحوں، ہندووں، سکھوں اور شیعہ کمیونیٹی کے۔

سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کی سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت پر سول سوسائیٹی احتجاج کر رہی ہیں۔ ( اے پی۔ فائل)
سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کی سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت پر سول سوسائیٹی احتجاج کر رہی ہیں۔ ( اے پی۔ فائل)

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حکومت نے اہانت مذہب، احمدیہ مخالف قوانین کو ایک نظام کے تحت نافذ رکھا اور مذہبی اقلیتوں کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جیسے غیر ریاستی عناصر سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہی۔ یہ سنی تنظیم پاکستان کے اندر تیزی سے اثرورسوخ حاصل کر رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن افراد کو اہانت مذہب کے الزامات کا سامنا تھا ان کو تشدد ، جیل، حتیٰ کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اور جیل جانے والوں کو ضمانت کا کم ہی موقع ملا۔ کمیشن کے مطابق پاکستان کے اندر مذہب یا عقیدے کی آزادی کے زمرے میں متاثرہ افراد کی تعداد 55 بتائی گئی ہے جن کو پاکستان میں اہانت مذہب کے قانون کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا۔

اہانت مذہب کے عام الزامات پر ہجوم نے طیش میں آ کر تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اقلیتی کمیونیٹیز کو نشانہ بنایا۔ جنوری 2021 میں ایک نرس تبیتھا گل پر اس کی کولیگز نے توہین مذہب کا الزام لگایا اور ان کو کراچی کے ایک ہسپتال میں ان کے سٹاف کے ساتھیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ دسمبر میں ایک مشتعل ہجوم نے سیالکوٹ کے اندر ایک سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کو ایسے ہی الزام پر جلا کر ہلاک کر دیا۔ اگست میں پنجاب میں ہندووں کے ایک مندرپر اس وقت ہجوم نے حملہ کر دیا جب عدالت نے توہین مذہب کے مقدمے میں ایک آٹھ سالہ ہندو بچے کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔ جولائی میں توہین مذہب کے الزام سے بری ہونے والے ایک شخص کو پنجاب میں ایک پولیس کانسٹیبل نے ہلاک کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حکومت اگرچہ کھلے بندوں ہجوم کے تشدد کی مذمت کرتی ہے لیکن ملک کے اندر اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ اب بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ ستمبر میں ایک سکھ میڈکل پریکٹیشنر کو پشاور میں ان کے کلینک میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مارچ میں سکھر میں ایک ہندو صحافی کو اس کی رپورٹنگ کے سبب ہلاک کر دیا گیا۔

پاکستان کے اندر پشاور ہی میں فروری میں جماعت احمدیہ کے دو افراد کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ مذہبی آزادیوں کی رپورٹ کے مطابق اس جماعت کے لوگوں کو ملک کے اندر اپنے عقائد کے سبب بدستور سرکاری سطح پر اور معاشرے کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ یہ جماعت خود کو مسلمان کہتی ہے جبکہ پاکستان کے آئین میں ان کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے۔ 2019ء میں احمدی کمیونیٹی نے 49 کیسوں کے بارے میں بتایا ہے، جو ان کے بقول، پولیس نے ان کے خلاف ان کے مذہب اور عقیدے کے سبب رجسٹر کیے تھے۔ اسی طرح اس کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی 121 قبروں اور پندرہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی اور انتظامیہ کی موجودگی میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

افغانستان:

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سربراہ نیڈائن مائنزہ نے کہا ہے کہ انہیں ا فغانستان کے اندر مذہبی آزادیوں میں تنزلی پر دلی دکھ ہوا ہے۔ ان آزادیوں میں بالخصوص کمی ملک کے اندر گزشتہ اگست میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد ہوئی۔ ان کے بقول، مذہبی اقلیتوں نے اپنے عقیدے کی وجہ سے یہاں ہراسگی، قید وبند حتیٰ کہ ہلاکتوں کا سامنا کیا ہے اور خواتین کی تعلیم اور نمائندگی کے حوالے سے کئی برسوں میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں، اب مفقود ہیں۔

رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ برما، چین، ارٹریا، انڈیا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو ایسے ممالک کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے تشویش کے حامل ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

بھارت:

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں سال 2021ء میں مذہبی آزادیوں کی صورتحال قابل ذکر انداز میں ابتر ہوئی۔ بھارت کی حکومت اپنی پالیسیوں پر طاقت سے عمل درآمد کرایا جس ہندو نیشنل ایجنڈے کا فروغ بھی شامل ہے۔ ان پالیسوں نے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو منقی انداز میں متاثر کیا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی حکومت نے ہندو ریاست کے نظریے کو ایک نظام کی شکل دینے کی کوشش جاری رکھیں اور وفاقی اور ریاستی سطح پر ایسے موجودہ موجودہ قوانین اور ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کو بروئے کار لایا گیا جو ملک کے اندر مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہیں۔

بھارت میں سول سوسائیٹی کے لوگ حکومت کے نقادوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف نئی دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے پی)
بھارت میں سول سوسائیٹی کے لوگ حکومت کے نقادوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف نئی دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے پی)

سال 2021 میں رپورٹ کے مطابق، بھارت کی حکومت نے تنقید کرنے والی آوازوں کو دبایا بالخصوص ان آوازوں کو جو مذہیبی اقلیتوں کے حق میں اٹھ رہی تھیں۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو ہراساں کیا گیا، ان کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور ان کے خلاف ’ غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے بنائے گئے قوانین ( یو اے پی اے) کے تحت مقدمات چلائے گئے۔ 84 سالہ پادری، فادر ستان سوامی جو دلتوں اور دیگر محروم کمیونیٹیز کے حقوق کے لیے ایک مدت سے آواز اٹھا رہے تھے، ان کو انہی قوانین کے تحت اکتوبر 2020 میں گرفتار کیا گیا، مگر ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ وہ جولائی 2021 میں حراست کے دوران ہی انتقال کر گئے باوجود اس کے کہ ان کی صحت سے متعلق بار بار خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

مذہبی آزادیوں کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھارت کے اندر حکومت نے ان صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف بھی تحقیقات کیں جو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنائے جانے اور تشدد کے واقعات کو دستاویزی شکل دے رہے تھے۔

یو ایس کمیشن برائے مذہبی آزادی کی خودمختاری اور دو جماعتی نمائندگی اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کو درپیش خطرات کو اجاگر کر سکے۔

رپورٹ میں امریکی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کے لیے اقدامات کو سراہا بھی گیا ہے اور کئی تجاویز بھی دی گئی ہیں جن کے تحت پاکستان سمیت کئی ممالک کو ان ملکوں کی فہرست میں رکھنے کا کہا گیا ہے جہاں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے زیادہ تشویش پائی جاتی ہے ۔ روس، چین، برما، عراق، ایران دنیا دنیا کے متعدد ممالک میں مذہبی آزادیوں کی صورتحال کا اس رپورٹ میں احاطہ کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں دنیا بھر میں ایسے سات غیر ریاستی عناصر کو بھی ’ انٹیٹی آف پارٹیکلر کنسرن‘ والی فہرست میں شامل رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جو مذہبی آزادیوں کے زمرے میں خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس میں الشباب، بوکو حرام، حوثی، حیات تحریر الشام، داعش ان گریٹر صحارا، داعش (مغرب افریقہ) اور نصرالاسلام ولمسلم شامل ہیں۔

رپورٹ کے اعدادوشمار مذہبی آزادیوں کا جائزہ لینے والے کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹ سے لیے گئے۔ پاکستان اور بھارت یا افغانستان کی جانب سے فوری طور پر اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

XS
SM
MD
LG