پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور مبصرین نے امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کو زمینی حقائق کے قریب قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ رپورٹ میں سامنے لائے گئے مسائل کے تدارک پر کام کیا جانا چاہیے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں بعض عوامل سیاسی مقاصد کے تحت بھی ہو سکتے ہیں البتہ پاکستان کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے منگل کو 2021 کی انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بدتر ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد روا رکھا گیا۔ انہیں بلا جواز قید میں رکھا گیا یا ان کو غائب کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ حکومت نے سنسر شپ اور ہتک عزت کے مجرمانہ قوانین لاگو کیے۔
پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر تاحال اس رپورٹ پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تاہم ماضی میں اسلام آباد اس قسم کی رپورٹس کو مسترد کرتا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کے مقاصد جو بھی ہوں مگر سامنے لائے جانے والے مسائل زمینی حقائق کے قریب ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالیہ عرصے میں جس شعبے کو سب سے زیادہ پابندیوں اور سختیوں کا سامنا رہا وہ اظہار رائے اور آزادیٴ صحافت ہے۔ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ حکومت انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرنے والی رپورٹس پر جامع دلائل سامنے لانے کے بجائے اسے یکسر مسترد کردیتی ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوامی آگاہی پر زور دیا جانا چاہیے کیوں کہ جب عوام اپنے حقوق کا شعور رکھتے ہیں تو عوامی دباؤ پر حکومت کارروائی کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
تجزیہ نگار نجم رفیق کہتے ہیں کہ چین، ایران اور پاکستان میں انسانی حقوق کو ضرور اجاگر کیا جاتاہے کیوں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ان ممالک کو کسی نہ کسی صورت انسانی حقوق کے حوالے سے دباؤ میں رکھا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان میں بہت سے مسائل ہیں جنہیں دنیا کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کوئی بھی خود پر الزام لینے کو تیار نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے پاکستان ایسی رپورٹس کو مسترد کرتا آیا ہے۔ تاہم خواتین، اقلیتوں، مذہبی آزادیوں اور بچوں سے مشقت کے سنگین مسائل موجود ہیں۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی سالانہ رپورٹ 200 سے زائد ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ 2021 کی سالانہ انسانی حقوق رپورٹ میں پاکستان سے متعلق بھی 72 صفحات پر مبنی ایک باب شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے لوگوں کے پرامن اجتماعات، تنظیموں کی آزادی جیسے حقوق میں مداخلت کی، جن میں غیر سرکاری تنظیموں پر بندشیں عائد کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت نے مذہبی آزادی اور آزادنہ نقل و حرکت پر بھی سخت بندشیں عائد کیں۔
رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی، میڈیا پر قدغنیں اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں، صحافیوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے، سینسر شپ اور ویب سائٹوں کو بلاک کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور کئی مذہبی آزادیاں بھی کمپرومائز ہوئیں۔
دوسری جانب واشنگٹن ڈی سی میں بھارت اور امریکہ کے درمیان جاری ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ کے اختتام پر جاری مشترکہ بیان میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جائے اور اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
اسلام آباد نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ٹو پلس ٹو وزارتی سطح کے مذاکرات میں پاکستان کے غیر ضروری تذکرے کو دو ٹوک انداز میں مسترد کیا ہے۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ افسوسناک ہے کہ دوطرفہ تعاون کا فورم ایک تیسرے ملک کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ سیاسی مصلحت اور دہشت گردی کے ابھرتے اصل خطرات سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔