وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کا ’واحد راستہ مذاکرات ہیں‘۔ لیکن، بقول اُن کے، ’بیک وقت لڑائی اور مذاکرات، ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘۔
بھارت کے بارے میں، اُنھوں نے کہا کہ ’کئی ممالک کی مدد سے، بھارت بڑے پیمانے پر فوجی تیاریاں کر رہا ہے، جو پاکستان کے لئے باعث تشویش ہے‘۔
جمعے کے روز ’امریکی انسٹیٹوٹ برائے امن‘ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات کی بحالی اور امن کے لئے انھوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔ لیکن، بقول اُن کے،’بدقسمتی سے، ان تجاویز کا مثبت جواب نہیں دیا گیا‘۔
پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر پاک بھارت مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہوتی ہیں ’تو پھر، کسی تیسری قوت کو مداخلت کرکے صورتحال معمول پر لانے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، خطے کے دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تناؤ پوری دنیا کے لئے سنگین خطرہ ہے‘۔
نواز شریف نے کہا کہ ’بھارت کی فوجی تیاریوں کے نتیجے میں پاکستان اپنی سلامتی کے لئے اقدامات پر مجبور ہے اور وہ اس حوالے سے، لائحہ عمل تیار کر رہا ہے‘۔
افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ ’افغان مسئلے کے دو حل ہیں ایک فوجی اور دوسرے مذاکرات۔ فوجی حال کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوچکی ہیں اور اب واحد راستہ مذاکرات کا ہے۔ لیکن، یہ ممکن نہیں کہ بیک وقت کسی سے مذاکرات بھی کئے جائیں اور اس سے لڑائی بھی جاری رکھی جائے‘۔
جوہری مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ان کا ملک جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے وعدے پر قائم ہے، اور آئی اے اِی اے کی نگرانی میں چھوٹے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے، تاکہ ملک میں بجلی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سرکاری اقدامات سے پاکستان میں سیکورٹی کی اندرونی صورتحال بہتر ہوئی۔ لیکن، اب اسے بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، تاکہ معیشت بہتر ہو سکے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔