پاکستانی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کے اُبھرتے ہوئے اداکار عثمان مختار کا شمار ان نوجوان اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے کم عرصے میں ہی لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔
ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل 'انا' سے اپنے ٹی وی کریئر کا آغاز کرنے والے عثمان مختار نے 'ثبات' میں ڈاکٹر حارث کا کردار بخوبی نبھایا تھا۔ جس کے بعد اب ان کا ڈرامہ 'ہم کہاں کے سچے تھے' ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
یہ بات بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے کہ عثمان مختار ماضی کی مشہور فلمی اداکارہ ناصرہ بیگم کے صاحب زادے ہیں۔ جنہوں نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں 'کنیز'، 'زرقا'، 'تہذیب'، 'امراؤ جان ادا' اور 'آئینہ' جیسی کامیاب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت کے دوران عثمان مختار نے انکشاف کیا کہ انہوں نے بچپن میں والدہ کی صرف ایک ہی فلم دیکھی تھی اس کے علاوہ انہوں نے ان کی کوئی اور فلم نہیں دیکھی تھی۔ وہ اپنی والدہ کو دیکھ کر اداکاری کی طرف نہیں مائل ہوئے بلکہ انہیں بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا۔
اداکار کے بقول ''بچپن میں میں نے اماں کی صرف ایک فلم دیکھی تھی جس میں وہ ایک چھوٹے بچے کی پٹائی کر رہی تھیں، اس کے بعد میری ان کی کوئی اور فلم دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ اماں کو دیکھ کر اداکاری کا خیال تو نہیں آیا لیکن ان کے 'جینز' سے فائدہ ضرور ہوا۔''
عثمان مختار نے اپنے کریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا تھا لیکن ان کے مطابق انہیں اپنے ٹیلنٹ کا اس وقت پتا چلا جب وہ لوگوں کی نقلیں اتارا کرتے تھے۔ بعدازاں انہوں نے تھیٹر کے ذریعے بہت کچھ سیکھا اور پھر فلم اور ٹی وی کا رخ کیا۔
نوجوان اداکار کا ماننا ہے کہ اگر کسی کو اداکاری میں مہارت حاصل کرنی ہے تو اسے تھیٹر ضرور کرنا چاہیے۔
عثمان مختار کہتے ہیں کہ اگر کوئی اداکاری بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک دو بار تھیٹر ضرور کر لینا چاہیے، انہیں خود بھی تھیٹر کرنے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
ٹی وی پر کام کرنے سے قبل عثمان مختار نے کئی مختصر اور فیچر فلموں میں بھی کام کیا ہے جن میں 'گول چکر'، 'جاناں'، اور 'پرچی' شامل ہیں۔
علاوہ ازیں ان کی مختصر فلم 'بینچ' گزشتہ برس کئی عالمی فلم فیسٹیول کی زینت بھی بنی۔ عثمان مختار کے مطابق وہ مختصر فلمیں بناتے وقت ہدایت کاری پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ فلم کے ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت کیمرا مین بھی تھے۔
فلم 'پرچی' کے تجربے نے جہاں عثمان مختار کو یہ بتایا کہ وہ ایک اچھے سنیما ٹوگرافر بھی ہیں وہیں انہیں یہ سبق بھی دیا کہ اداکاری کے ساتھ سنیما ٹوگرافی کی ذمہ داری اٹھانا ان کے کام کو مزید مشکل بناتا ہے۔
عثمان مختار نے بتایا کہ وہ خود کو ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی (ڈی او پی) نہیں مانتے لیکن جب وہ کام سیکھ رہے تھے تو فنڈز کی کمی کی وجہ سے انہوں نے سنیماٹوگرافی بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کم لاگت سے بننے والی مختصر فلمز میں ایسا ہی کرتے ہیں اور 'پرچی' فلم بنانے والوں نے بھی انہیں کیمرے کے آگے اور پیچھے دونوں جگہ کام کرنے کے لیے قائل کیا۔
اداکار نے کہا کہ شروع میں انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا اور جب انہوں نے دونوں کام کرنے کی کوشش کی تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہ کام واقعی بہت مشکل تھا۔
عثمان مختار کا ماننا ہے کہ اداکاری کے ساتھ ہدایت کاری تو ہو جاتی ہے لیکن اداکاری کے ساتھ سنیما ٹوگرافی بہت مشکل کام ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مختصر فلم میں کیمرا خود ہی آپریٹ کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ایڈیٹنگ بھی جاری رکھیں گے کیوں کہ اس سے انہیں تخلیقی اختیار ملتا ہے اور انہیں اپنا کام ایڈیٹ کر کے مزہ بھی آتا ہے۔
'بینچ کا سات فلم فیسٹیول میں جانا ہی میرا سب سے بڑا انعام ہے'
عثمان مختار ٹیلی ویژن کی دنیا پر تو دو برس قبل 'انا' کے ذریعے متعارف ہوئے تھے لیکن لوگ انہیں ان کی مختصر فلم 'سرکٹ' کی وجہ سے جانتے تھے۔
گزشتہ برس ان کی فلم 'بینچ' انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے لیے منتخب ہوئی تھی۔ اداکار کے مطابق ''بینچ کا آئیڈیا انہیں اپنے گھر کے پاس ایک پارک میں پڑی بینچ کو دیکھ کر آیا تھا، جس پر روز نئے لوگ بیٹھتے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ اس بینچ پر بیٹھ کر روز کئی الگ الگ کہانیاں سنائی جاتی ہوں گی۔ جب انہوں نے اس سے متعلق اپنے رائٹر علی مدار سے بات کی تو انہوں نے اس پر مختصر فلم لکھ دی جسے انہوں نے بڑی محنت سے شوٹ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'بینچ' سات فلم فیسٹیولز میں پیش کی گئی جن میں ساؤتھ ایشین انڈیپنڈنٹ فلم فیسٹیول اور کانز انٹریشنل فلم فیسٹیول بھی شامل ہیں۔
عثمان مختار کا ماننا ہے کہ کسی بھی فلم ساز کے لیے اس قسم کی پذیرائی اسے مزید اچھا کام کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔
'ہم کہاں کے سچے تھے میں اسود بظاہر بے وقوف لگتا ہے، لیکن ہے نہیں'
عثمان مختار اس وقت ہم ٹی وی کے ڈرامے 'ہم کہاں کے سچے تھے' میں اسود کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ڈرامے میں ان کے مدِ مقابل اداکارہ ماہرہ خان اور کبریٰ خان ہیں۔
'ہم کہاں کے سچے تھے' میں جہاں ان کی سنجیدہ اداکاری کو پسند کیا جا رہا ہے وہیں کچھ شائقین کی نظر میں ان کے کردار کو بے وقوفانہ سمجھا جا رہا ہے۔
عثمان مختار کے بقول ان کا کردار 'اسود' بظاہر بے وقوف لگتا ہے لیکن ہے نہیں۔ انہوں نے اس ڈرامے میں کام کرنے کی حامی اس لیے بھری تھی کیوں کہ انہیں اسود جیسے ہی کردار کی تلاش تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ 'انا' میں التمش اور 'ثبات' میں ڈاکٹر حارث بننے کے بعد مجھے کسی ایسے کردار کی تلاش تھی جس میں مثبت کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی ہو۔
عثمان مختار کے مطابق اسود کا کردار منفی نہیں بلکہ یہ ایک گرے کریکٹر ہے جس کے اندر ایک جنگ چل رہی ہے۔
'ہم کہاں کے سچے تھے' کی کہانی مصنفہ عمیرہ احمد نے لکھی ہے جب کہ اس کی ہدایت کاری فاروق رند نے دی ہے۔
'ٹی وی پر تجربات کے سلسلے کو بڑھانے کی ضرورت ہے'
عثمان مختار کمرشل ڈراموں میں اداکاری کرنے کے ساتھ نان کمرشل فلمیں بھی بنا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ٹی وی کے شعبے میں تجربات کے سلسلے کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ٹی وی پر مختلف قسم کے پروگرامز آن ایئر ہوتے تھے جس میں کامیڈی شوز کے ساتھ ساتھ ہارر، تھرلر اور کرائم تھرلر بھی شامل تھے۔ لیکن اب ٹی وی پر اس قسم کے تجربے نہیں ہو رہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایک جیسی کہانیاں نہ بنائیں اور زیادہ سے زیادہ تجربے کریں۔
گزشتہ دنوں عثمان مختار ہراسانی سے متعلق کیس کی وجہ سے خبروں میں رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر 'وی اسٹینڈ ود عثمان مختار' کا ٹرینڈ بھی وائرل ہوا تھا۔
عثمان مختار نے اپنے مداحوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے بھی خیال رکھنا چاہیے۔ آن لائن موجود تمام باتیں درست نہیں ہوتیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین کو چاہیے کہ انٹرنیٹ پر موجود مواد پر پہلے تحقیق کریں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچیں۔