پاکستان میں کرونا وائرس کیسز میں کمی کے بعد جہاں دیگر کاروباری سرگرمیاں بتدریج بحال ہو رہی ہیں وہیں ویکسی نیٹڈ فلم بینوں کے لیے رواں ہفتے سے سنیما گھروں کے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔
گزشتہ مارچ میں کرونا وبا کے پھیلاؤ کے باعث بند ہونے والے سنیما گھر اب کھل تو رہے ہیں، لیکن شائقین گھر بیٹھے نیٹ فلکس اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے بہت سی فلمیں دیکھ چکے ہیں جو اس عرصے کے دوران ریلیز ہوئیں۔ لہذٰا سنیما مالکان کو اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ ایسی کون سے فلموں کی نمائش کریں جو فلم بینوں کو سنیما گھروں کی جانب کھینچ لائے۔
بعض سنیما گھر 22 اکتوبر سے ہالی وڈ فلم 'وینم لیٹ دئیر بی کارنیج' نمائش کے لیے پیش کر رہے ہیں جب کہ کچھ اس عرصے کے دوران ریلیز ہونے والی فلموں کے اُردو ورژن کی نمائش کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مارچ 2020 سے بند سنیما انڈسٹری کو رواں برس جولائی میں ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن مبینہ طور پر ایس او پیز کی خلاف ورزی کی شکایات اور کرونا کیسز دوبارہ بڑھنے پر انہیں بند کر دیا گیا تھا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کراچی اور لاہور سمیت پاکستان کے کئی چھوٹے اور بڑے سنیما 22 اکتوبر سے دوبارہ فعال ہو جائیں گے۔
ابتدا میں سنیما مالکان ہالی وڈ کی فلموں سے آغاز کریں گے لیکن حکومتی اجازت اور وبا کنٹرول میں رہنے کی صورت میں 'قائدِاعظم زندہ باد'، 'ٹچ بٹن' اور 'دم مستم' جیسی پاکستانی فلمیں بھی سنیما کی زینت بنیں گی۔
جو فلمیں لوگ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں دیکھ چکے کیا وہ سنیما میں آئیں گی؟
ڈیڑھ سال کے اس عرصے میں جب پاکستان میں سنیما بند تھے، تو ہالی وڈ کی کئی فلمیں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ریلیز ہوئیں جنہیں شائقین سنیما کی بڑی اسکرین پر دیکھنے سے قاصر رہے۔
ان میں کرسٹوفر نولن کی فلم 'ٹینیٹ' اور فاسٹ اینڈ فیوریس سیریز کی نویں فلم 'ایف نائن' سرِ فہرست ہے جسے کئی شائقین اب بھی سنیما میں دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
معروف شوبز رپورٹر عثمان غفور کے مطابق اب شاید ہر وہ فلم جو سنیما میں لگنی چاہیے تھی وہ سنیما میں نہ لگے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اصل بحث یہ نہیں کہ عالمگیر وبا کے دوران سنیما چل پائے گا یا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہو گا کہ لوگ سنیما گھروں کا رُخ کرتے ہیں یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ "جب نیٹ فلکس، ایمازون اور ایپل پلس جیسے ڈیجیٹل اسٹریمرز آئے تھے، تب بھی یہی بحث ہو رہی تھی کہ لوگ سنیما یا ان پلیٹ فارمز میں سے کس کو ترجیح دیں گے جب کہ اب کرونا وبا کے دوران بھی اس بحث کا دوبارہ آغاز ہو گیا ہے۔"
بقول عثمان غفور، ایک سے ڈیڑھ سال بند رہنے کے بعد اگر سنیما کھلتے ہیں، وہ بھی ایس او پیز کے ساتھ تو سنیما جانے کا رجحان دوبارہ شروع ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کووڈ کی کوئی نئی لہر سامنے نہ آئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کرونا نے کافی تباہی مچائی لیکن اب وہاں سنیما بھی کھلنے جا رہے ہیں اور جہاں کھلے ہیں وہاں شوز ہاؤس فل جا رہے ہیں۔ جیسے بھارت میں لوگ سنیما جانا چاہ رہے ہیں۔ ویسے ہی یہاں بھی لوگ سنیما میں فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہالی وڈ میں بھی 'ہیلووین کلز' نے ڈراؤنی فلموں کی تاریخ کی سب سے بڑی ریکارڈ اوپننگ دی جس سے باکس آفس پر، ڈسٹری بیوٹر، ایگزی بٹر اور فلم میکر کا سنیما پر اعتماد بحال ہو گیا ہے۔"
کرونا سے بچاؤ اور اس کی روک تھام کے لیے ایس او پیز پر عمل درآمد پر عثمان غفور کو شکوک و شہبات ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں لوگوں کا ایس او پیز کو فالو کرنا کاغذوں پر تو ٹھیک لگتا ہے، لیکن ان پر عمل درآمد شاید ممکن نہ ہو۔
اردو فلموں کی کمی عوام ہالی وڈ کی اردو میں ڈب فلموں سے پوری کرتے ہیں!
کراچی کے کیپری سنیما کے مالک فرخ رؤف سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں سنیما کا کھلنا ایک اچھا قدم ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے سنیما میں ہالی وڈ فلموں کے اردو ڈب ورژن کی مانگ رہتی ہے اس لیے وہ تو ہر وہ فلم سنیما میں ریلیز کرنا چاہیں گے جو خالصتاً سنیما کے لیے ہی بنی ہے۔
اُن کے بقول "ہالی وڈ کی کئی ایسی فلمیں اس وقت ریلیز ہوئیں جب پاکستان میں سنیما بند تھے لیکن میں پرامید ہوں کہ اب سنیما کھلنے کے بعد کئی ایسی فلمیں سنیما میں لگیں گی جن کا لوگوں کو انتظار تھا۔"
فرخ رؤف کے مطابق 22 اکتوبر سے وہ اپنے سنیما میں 'وینم لیٹ دئیر بی کارنیج' اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تو لگا ہی رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان کی کوشش ہو گی کہ فلم 'بلیک وڈو' بھی لگائیں جس کے اردو اور انگریزی دونوں ورژن کی عوام میں ڈیمانڈ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پاس چوائس ہوتی ہے تو وہ ویک اینڈز کے علاوہ باقی تمام دن اردو ڈب ورژن کو زیادہ شوز دیتے ہیں تاکہ وہ اردو سنیما کے دلدادہ جو ملٹی پلیکس جا کر انگریزی ورژن دیکھنے کو ترجیح نہیں دیتے، وہ کیپری سنیما میں آ کر اپنا شوق پورا کر لیں۔
'پاکستان میں ان فلموں کا لگنا مشکل ہے جنہیں ریلیز ہوئے کافی وقت ہو گیا'
گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال سے جہاں کرونا نے فلم بینوں کو سنیما سے دور رکھا وہیں سنیما مالکان بھی پریشان رہے، اب جب کہ سنیما کھلنے جا رہے ہیں تو شائقین بھی پر امید ہیں کہ وہ فلمیں جو وہ سنیما میں دیکھنا چاہتے تھے اب انہیں یہ موقع مل رہا ہے۔
عثمان غفور کے خیال میں پاکستان میں ڈزنی پلس، ایچ بی او میکس اور دیگر پلیٹ فارمز کا نہ ہونا بھی لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے فلمیں دیکھنے پر مجبور کرتا ہے اور اسی لیے ریلیز ہو جانے والی فلموں کا سنیما میں لگنا دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے 2016 میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم 'اے دل ہے مشکل' کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پابندی کی وجہ سے رنبیر کپور اور انوشکا شرما کی فلم دیر سے لگی اور باکس آفس پر ویسی کارکردگی نہ دکھا سکی جس کی اس سے توقع تھی۔
اُن کے بقول "سنیما میں نئی فلم کا لگانا تو سمجھ میں آتا ہے، پرانی فلم کا نہیں، ڈیجیٹل پر دستیاب فلموں کو سنیما میں ریلیز کرنا ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ فاسٹ اینڈ فیوریس کی نئی فلم یا کسی بھی تھری ڈی فلم کا اصل مزہ تو سنیما میں ہی آئے گا۔ لیکن یہ بات بھی غلط نہیں کہ لوگ ریلیز ہونے والی فلم بہت کم ہی سنیما میں جا کر دوبارہ دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سنیما نیو پلیکس کے ڈائریکٹر میڈیا اینڈ مارکیٹنگ کامران یار خان نے بھی عثمان غفور کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں ریلیز ہو جانے والی فلموں کی پاکستانی سنیما گھروں میں نمائش اب قدرے مشکل ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کامران یار خان نے کہا کہ اگرچہ ایف نائن اور جسٹس لیگ جیسی فلمیں سنیما کے لیے بنی تھیں، لیکن وقت زیادہ گزر جانے اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز ہو جانے کی وجہ سے اب یہ سنیما میں ریلیز نہیں ہو سکتیں۔
اُن کے بقول "ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب 2020 کے آغاز والے حالات نہیں رہے، پہلے سنیما میں فلم ریلیز ہونے کے تین ماہ بعد تک فلم ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ریلیز نہیں ہوتی تھی، لیکن اب ہر دوسری فلم سنیما کے بعد ڈیجیٹل پر ریلیز ہو جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سنیما کا کافی عرصہ بند رہنا تھا جس کی وجہ سے پروڈیوسروں کو دوسرے پلیٹ فارم کی جانب دیکھنا پڑا۔"
'سنیما انڈسٹری کی مکمل بحالی میں اب وقت لگے گا'
کامران یار خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنیما کے معاملات بدل چکے ہیں، اور ملک میں سنیما انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے وقت لگے گا۔
اُن کے بقول گزشتہ ماہ ریلیز ہونے والی فلم 'شینگ چی اینڈ دی لیجنڈ آف ٹین رنگز' بھی اب پرانی فلم تصور کی جائے گی۔
کامران کہتے ہیں کہ "پاکستان میں اب صرف وہ فلمیں سنیما کی زینت بنیں گی جس کے یا تو حقوق پاکستانی ڈسٹری بیوٹرز کے پاس ہیں یا پھر جو دنیا بھر میں ریلیز ہو گی۔ اسی لیے 22 اکتوبر سے پنجاب کے سنیما گھروں میں 'وینم ٹو'، 'ڈیون 'اور 'رون گونز رونگ' جیسی فلمیں ریلیز ہوں گی۔ جب کہ کراچی کے سنیما گھروں میں امکان ہے کہ 'وینم ٹو' کے ساتھ ساتھ بلیک وڈو ریلیز کی جائے جو اس وقت سنیما میں لگی ہوئی تھی جب حکومت سندھ نے کرونا کی وجہ سے سنیما بند کئے تھے۔"
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں صحیح معنوں میں سنیما انڈسٹری اس وقت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی جب دسمبر میں اسپائیڈر مین کی تیسری اور میٹریکس سیریز کی چوتھی فلم ریلیز ہو گی۔