بھارت میں ریاست اتر پردیش کی حکومت کے ایک حالیہ قانون کو، جسے غیر قانونی تبدیلیٔ مذہب قانون یا 'لو جہاد مخالف قانون' کہا جا رہا ہے، سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
غیر قانونی تبدیلیٔ مذہب قانون کے بارے میں دو درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ قانون آئین کی متعدد دفعات کے منافی ہے۔ لہٰذا اسے غیر آئینی قرار دیا جائے۔
درخواست دہندگان نے ریاست اتراکھنڈ کے مذہبی آزادی ایکٹ 2018 کو بھی چیلنج کیا ہے۔
مفادِ عامہ کی پہلی عرضی دہلی کے ایک وکیل نیرج شرما نے دائر کی۔
انہوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ قانون آئین کی دفعات 14، 15، 21 اور 25 کے منافی ہے۔
دوسری درخواست دہلی اور الہ آباد کے وکلا اور قانون کے طلبہ کے ایک گروہ نے داخل کی ہے۔ ان دونوں درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئین ہر شہری کو مذہب سے قطعِ نظر پسند کی شادی کرنے اور زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتر پردیش کا یہ قانون غلط عناصر کے ہاتھوں میں ہتھیار بن جائے گا اور وہ کسی پر بھی 'لو جہاد' کا الزام لگا دیں گے۔
اس قانون کے تحت مجرم قرار پانے والوں کو 10 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔
اتر پردیش حکومت کے ترجمان اور وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ کے مطابق جھوٹ، فریب اور دھوکے سے مذہب تبدیل کرانے اور شادی کرنے کے واقعات کو روکنے کے لیے اس قانون کی ضرورت تھی۔ ایسا قانون منظور کرنے والی اتر پردیش پہلی ریاست بن گئی ہے۔
دہلی اقلیتی کمشن کے سابق چیئرمین اور انگریزی اخبار 'ملی گزٹ' کے مدیر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مذکورہ قانون کے غیر آئینی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ لو جہاد ایک فرضی اصطلاح ہے۔
ان کے بقول اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مسلم لڑکے سازش کے تحت ہندو لڑکیوں کو محبت کا جھانسا دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایسا قانون بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ آئین نے سب کو اپنی پسند کے مطابق جینے کی آزادی دی ہے۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
تاہم انہوں نے ایسی شادیوں کی مبینہ ناکامی کی وجہ سے اس کی مخالفت بھی کی۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے یہ بھی کہا کہ اتر پردیش حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ قانون سازی کی بجائے دونوں فرقوں کی مذہبی شخصیات سے بات کرتی اور کہتی کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی شادیوں سے روکیں۔
نئے قانون کے تحت ایک مسلم نوجوان گرفتار
اس قانون کی گورنر سے منظوری کے ایک روز بعد ہی بریلی کی پولیس نے ایک مسلم نوجوان 21 سالہ اویس احمد کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا۔
عدالت نے اویس احمد کو 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔
اویس احمد کے والد 70 سالہ محمد رفیق نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ لو جہاد کا الزام تکلیف دہ اور خوف ناک ہے۔
ان کے مطابق لڑکی کے اہل خانہ اچھے لوگ ہیں۔ انہوں نے مجھ سے مل کر میری حمایت کرنے کی بات کی ہے۔
انہوں نے لو جہاد کے الزام کی تردید کی۔
ان کا الزام ہے کہ پولیس نے تعریف اور ترقی کے لیے کیس درج کیا ہے۔ جب وہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے تھانے گئے تو ان پر بھی تشدد کیا گیا۔ پولیس نے محمد رفیق کے الزام کی تردید کی ہے۔
بریلی رینج کے ڈی آئی جی راجیش پانڈے کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں الزامات میں صداقت دکھائی دیتی ہے۔
یاد رہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک ہی کالونی کے مکین ہیں۔ دونوں ساتھ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ دونوں کے گھروں کے درمیان بھی صرف 100 میٹر کا فاصلہ ہے۔
لڑکی کے والد ٹیکا رام کی اس شکایت پر کہ لڑکا اب بھی ان کی لڑکی پر مذہب تبدیل کرنے کا دباؤ ڈال رہا ہے، یہ کارروائی کی گئی ہے۔
لڑکی کی ایک ہندو لڑکے سے شادی ہو چکی ہے۔
ٹیکا رام کے کئی ہندو پڑوسیوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسے فرضی کیس بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پرانا معاملہ ہے اور بہت پہلے ختم ہو چکا تھا۔ پولیس نے پرانے معاملے کو از سر نو زندہ کیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوتوا کے حامی مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی کو 'لو جہاد' قرار دیتے ہیں۔ اور الزام لگاتے ہیں کہ ایسی شادی کرنے کے لیے مسلم لڑکوں کو بیرونِ ملک سے پیسے ملتے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس الزام کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کیا جا سکا۔
ادھر الہ آباد ہائی کورٹ اور کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ آئین ہر شہری کو اپنی پسند کی شادی کرنے اور زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔