امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو اس شبہے کا اظہار کیا کہ روس اورچین یوکرین میں امن کے حصول کے بارے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے امن کی کوششوں کی حمایت کرنے والے بیانات میں ٹھوس اقدامات کی کمی کا حوالہ دیا۔
ازبکستان کے دورے کے موقعے پر بات کرتے ہوئے، بلنکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگرروس اپنی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے بامعنی سفارت کاری میں حصہ لینے کے لیے حقیقی طورپرتیار ہو، توامریکہ بھی اس کوشش میں فوری طورپرحصہ لے گا۔
انہوں نےمزید کہا کہ روس کے اقدامات، بشمول صدر ولادیمیر پوٹن کے ان مطالبات کے کہ یوکرین کے کچھ حصوں پرروس کے کنٹرول کو تسلیم کیا جائے،یہ ظاہر کرتے ہیں کہ روس اس راستے کواختیار کرنےمیں دلچسپی نہیں رکھتا۔
بلنکن نے کہا کہ ’’اصل سوال یہ ہے کہ کیا روس اس مقام پرپہنچے گا جہاں وہ اپنی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے حقیقی طورپرتیار ہو اورایسے اقدامات اٹھائے جواقوام متحدہ کے منشوراوراس کے اصولوں کے مطابق ہوں۔‘‘
انہوں مزید کہا کہ ’’یوکرین کے لوگوں سے زیادہ فوری طور پرکوئی بھی امن کا متلاشی نہیں ہو سکتا۔ وہ روس کی جارحیت کا ہرروز شکار ہوتےہیں ۔ ہم سب یہ سادہ سچ جانتے ہیں کہ جنگ کل ختم ہو سکتی ہے، اگرصدر پوٹن چاہیں تو یہ آج ختم ہو سکتی ہے۔ یہ جنگ انہوں نے شروع کی تھی اور وہی اسے روک سکتے ہیں‘‘۔
بلنکن نے کہا کہ چین کی طرف سے پیش کی گئی امن کی تجویز میں کچھ ایسے مثبت اور مشترک عناصر شامل ہیں، جنہیں یوکرین کے صدرولودیمیر زیلنسکی کے امن منصوبے میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اگرچین تمام اقوام کی خود مختاری کو برقراررکھنے کے اپنے موقف کے بارے میں سنجیدہ ہوتا تو وہ گزشتہ سال روس کے حملے کے بعد ہی یوکرین کی مکمل خودمختاری کی حمایت کرتا اور اس کے لیے کام کرتا۔
بلنکن نے کہا کہ حقیقت میں چین نے اس کے برعکس کیا ہے، جس میں جنگ کے بارے میں روسی پروپیگنڈے کو آگے بڑھانا، روس کو بین الاقوامی اداروں میں شامل ہونے سے روکنے کی حمایت نہ کرنا اوریوکرین میں روسی افواج کو استعمال کرنے کے لیے مہلک فوجی امداد بھیجنے پر غورکرنا شامل ہے۔
ادھر واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے منگل کو اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال 60,000 سے 70,000 روسی فوجی مارے گئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم، چیچنیا اورافغانستان کی جنگوں میں کل ملا کر روس کے اتنے فوجی ہلاک نہیں ہوئے، جتنے کہ اب تک یو کرین کی جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
(اس رپورٹ میں کچھ معلومات دی ایسوسی ایٹڈ پریس، ایجنسی فرانس پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)