امریکی صدر براک اوباما جو اِس وقت جنوبی کوریا کے دورے پر ہیں، سابق امریکی فوجیوں کا دِن مناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اِس ایشیائی ملک کے دفاع کے عزم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
جمعرات کو سئول میں امریکی فوج کے ایک بیس پر اپنے خطاب میں صدر اوباما نے وہاں تعینات 28000فوجوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی موجودگی جمہوریت کی حفاظت میں معاون ثابت ہورہی ہے۔
مسٹر اوباما نے ساٹھ برس قبل تین سال تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ میں امریکی فوجیوں کی طرف سےحصہ لینے اور قربانیاں پیش کرنے کا ذکر کیا۔ یہ جنگ اُس وقت شروع ہوئی تھی جب کمیونسٹ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا تھا۔
صدر نے کہا کہ کوریائی جنگ کو غیرحتمی لڑائی کا نام دیا جاتا ہے جس کا خاتمہ ایک امن معاہدے کی جگہ ایک عارضی جنگ بندی پر ہوا۔ تاہم اُنھوں نے اِسے ایک فتح کا نام دیا کیونکہ جنوبی کوریا کی جمہوریت پھلی پھولی ہے اور اُس کے شہری شکرگزاری اور امید کی علامت ہیں۔
اُنھوں نے اپنی تقریرکا اختتام واشنگٹن ڈی سی میں کوریائی جنگ کے یادگار پر نقش عبارت کا حوالہ دیتے ہوئے کیا، جِس کے الفاظ ہیں کہ، ہماری قوم اُن بیٹوں اور بیٹیوں کی عزت کرتی ہے جنھوں نےایک ایسے ملک کے دفاع پر لبیک کہا جسے اُنھوں نے نہ کبھی دیکھا تھا، اور نہ ہی اُن لوگوں سے اُن کی کبھی کوئی ملاقات ہوئی تھی۔
امریکہ میں، نائب صدر جو بائیڈن نے واشنگٹن سے باہر آرلنگٹن میں سابق فوجیوں کے قومی قبرستان میں ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں شرکت کی۔اُنھوں نے کہا کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکیوں کا صرف ایک فی صد شریک ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ملک کے سو فی صدلوگ اپنے سپاہیوں کی خدمات کے شکرگزار ہیں۔
دریں اثنا، مسٹر اوباما کی بیگم خاتونِ اول مِشیل اوباما نے جرمنی کے رمسٹائین ایئر بیس پر تعینات امریکی فوجیوں سے ملاقات کی ۔
‘ویٹرنز ڈے ’ 1918ء کی تاریخ کی نسبت سے منایا جاتا ہے جب جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے اور پہلی عالمی جنگ کے خاتمےکا اعلان ہوا (جو تاریخ میں، 11بجے، 11ہویں دن اور 11ویں مہینے کے حوالےسے یاد کی جاتی ہے)۔ یورپ اور باقی جگہوں پر اِس دِن کو ‘آرمسٹائیس’ یا ‘رممبرینس ڈے’ کے ناموں سے منایا جاتا ہے۔
خاتونِ اول مِشیل اوباما نے جرمنی کے رمسٹائین ایئر بیس پر تعینات امریکی فوجیوں سے ملاقات کی
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1