کراچی میں گذشتہ تین روز سے جاری فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں کم ازکم 33 افراد کی ہلاکت کے بعد پیر کو شہر میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے۔ شہر کے اکثر علاقوں میں کاروباری مراکز کھلے رہے ، پبلک ٹرانسپورٹ معمول سے کم رہی تاہم تعلیمی اداروں میں حاضری حوصلہ افزا تھی۔
اورنگی ٹاؤن ، قصبہ کالونی، ملیر اور کورنگی سمیت بعض علاقوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی اطلاعات ملتی رہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں خوف ہراس برقرار ہے۔
اُدھر پیر کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے شہر کی صورتحال پر پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں ہنگامی آرائی میں ملوث 60 افراد کوگرفتار کیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کراچی میں ہر دو تین ماہ بعد قتل وغارت گری کی لہر سے حکومت بھی پریشان ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے نکالے گئے کارکنوں کی فہرستیں پولیس کو فراہم کریں ” جو جرائم پیشہ افراد ہم نے پکڑے ہیں وہ کسی نہ کسی پارٹی کا نام ضرور لیتے ہیں ۔ او ر جب ہم نے پارٹیوں سے رابطہ کیا ہے تو اُن کا کہنا ہے کہ یہ اُن کے لوگ نہیں ہیں“۔
رحمٰن ملک نے بتایا کہ ’’فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد جو سیاسی جماعتوں کا نام لے کر ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے ہیں ہم اُن کے نام افشا کریں گے۔‘‘
دوسری جانب کراچی کی خراب صورت اور اپنے تحفظات پر مرکز اور صوبے میں حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے گذشتہ روز حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی تھی۔ لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان بظاہر رابطوں کے بعد ایم کیوایم کی قیادت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا اور دونوں پارٹیوں نے بات چیت سے معاملات کو حل کر نے کا فیصلہ کیا گیا ۔
واضح رہے کہ کراچی میں اتوار کو صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 94 میں ضمنی انتخاب سے قبل شہر میں جاری کشیدگی اُس وقت شدت اختیار گئی جب ہفتے کو عوامی نیشنل پارٹی نے حفاظتی خدشات کے پیش نظر انتخابی عمل کے دوران فوج کوتعینات نہ کرنے پر الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
رکن سندھ اسمبلی رضا حیدر کے قتل کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر ایم کیوایم کے سیف الدین خالد نے کامیابی حاصل کی ہے۔