پانچ اکتوبر سے بھارت میں شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں دنیا کی 10 ٹاپ ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ لیکن صرف ایک ٹیم ایسی ہے جو اپنے سپورٹرز کے بغیر بھارتی میدانوں میں اتر رہی ہے اور وہ ہے ٹیم پاکستان۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے سیاسی تعلقات کافی عرصے سے خراب ہیں۔ لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم کے مداحوں اور صحافیوں کو بھارت کا ویزہ نہ جاری کرنے پر بھارتی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔
پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کے بھی چند صحافیوں کو بھارتی ویزہ حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی۔ لیکن بنگلہ دیشی حکومت کی مداخلت کے بعد یہ مسئلہ حل ہوا، لیکن پاکستانی صحافی اب بھی ویزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
پاکستانی ٹیم ایونٹ میں اب تک اپنے مجموعی نو میں سے دو میچز کھیل چکی ہے اور 14 اکتوبر کو اسے احمدآباد کے مقام پر بھارت کا سامنا کرنا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف نے بھی بھارت کی جانب سے پاکستانی صحافیوں اور مداحوں کو ویزے جاری نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پی سی بی چیف کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ ہے کہ اگر بھارتی حکومت نے پاکستانیوں کو ویزے جاری نہ کیے تو 14 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کا میچ بغیر پاکستانی مداحوں و صحافیوں کے کھیلا سکتا ہے۔
انہوں نے اس معاملے کو وزارتِ داخلہ کے سامنے پیش کیا اور ان سے درخواست کی وہ وہ جلد سے جلد اس کا حل نکالیں، چاہے اس کے لیے انہیں بھارتی حکومت سے ہی کیوں نہ بات کرنی پڑے۔
ذکا اشرف کا کہنا تھا کہ 'ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ سے پاکستانی صحافیوں اور مداحوں کو دور رکھنا ایک افسوس ناک عمل ہے، ان معاملات کو ایونٹ سے کافی پہلے ہی حل کرلینا چاہیے تھا تاکہ میگا ایونٹ میں ٹیم کو بھرپور انداز میں کوریج اور سپورٹ مل سکے۔'
ذکا اشرف کا مزید کہنا تھا کہ وہ ویزے کے معاملے میں تاخیر پر آئی سی سی اور بھارتی کرکٹ بورڈ دونوں سے رابطے میں ہیں اور دونوں سے اس معاملے کو جلد حل کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میگا ایونٹ کے قوانین کے مطابق مداحوں اور صحافیوں کو ویزہ جاری کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔
'احمدآباد میں سیکیورٹی خدشات ہیں'
چیئرمین پی سی بی 14 اکتوبر کو احمد آباد میں ہونے والے انڈو پاک میچ کی سیکیورٹی پر بھی اپنے خدشات سے وزارت داخلہ کو آگاہ کر چکے ہیں۔
ان کے خیال میں بھارتی حکومت کو سیکیورٹی تھریٹس کو سامنے رکھ کر پاکستان ٹیم کی سیکیورٹی پر نظرِثانی کرنی چاہیے۔
دونوں بورڈز کے کشیدہ تعلقات
پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز کے تعلقات گزشتہ کئی سالوں سے کشیدہ ہیں۔
سن 2008 میں ہونے والے ایشیا کپ کے بعد سے بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا جب کہ 2012 میں وائٹ بال سیریز کھیلنے آخری مرتبہ پاکستان ٹیم بھارت گئی تھی۔
سن 2016 میں بھارت میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم نے شرکت تو کی تھی۔ لیکن رواں سال جب پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنا تھی تو بھارت نے پاکستان آنے سے صاف منع کردیا تھا۔
ورلڈ کپ سے قبل خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم ایونٹ میں شرکت سے انکار کر دے گا۔ لیکن حکومت سے مشاورت کے بعد پی سی بی نے بھارت میں کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی۔
'یہ مہمان ٹیم کو دباؤ میں لانے کا حربہ ہے'
ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ احسان مانی کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے ویزے میں تاخیر مہمان ٹیم کو پریشر میں لینے کا ایک حربہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نہیں چاہتی کہ 14 اکتوبر کو احمد آباد میں ہونے والے میچ میں پاکستان کے زیادہ سپورٹرز ہوں اور میڈیا ہو۔
پانچ دہائیوں سے اسپورٹس صحافت سے منسلک احسان قریشی کہتے ہیں کہ وہ 1979 سے بھارت جا رہے ہیں، یہ پہلا موقع ہے کہ ویزہ ملنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا برتاؤ اس مرتبہ صحافیوں اور مداحوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس پر انہیں تشویش ہے۔
احسان قریشی کے بقول "اگر بھارتی حکومت نے مجھے ویزہ جاری کردیا تو میں آٹھویں بار ورلڈ کپ ایونٹ کو بطور صحافی رپورٹ کرسکوں گا، لیکن فی الحال اس میں تاخیر ہو رہی ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔"
احسان قریشی کے بقول اگر صرف پاکستان سے مسئلہ ہوتا تو رمیز راجہ اور وقار یونس کو بھی ویزہ نہیں ملتا۔ لیکن ایسا نہیں، انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھی اس معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتا کیوں کہ معاملے کا حل صرف بھارتی حکومت کے پاس ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "شائقین کے بغیر ورلڈ کپ میں کوئی مزہ نہیں آئے گا، اور پاکستان ٹیم کے میچز پھیکے نظر آئیں گے۔ سیاست سے کھیل کو الگ رکھنا چاہیے۔"
'گیند بھارتی حکومت کے کورٹ میں ہے'
آئی سی سی کے سابق میڈیا مینیجر اور بھارتی صحافی چندریش نارائنن کہتے ہیں کہ اس معاملے پر بھارتی کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ میگا ایونٹ سے پہلے رُکن ممالک اور میزبان ملک کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے جس میں میزبان کرکٹ بورڈ ویزہ فراہم کرنے میں مدد دینے کی حامی بھرتا ہے۔ لیکن وہ گارنٹی نہیں دیتا کہ ہر حال میں مداحوں اور صحافیوں کو ویزے جاری کرے۔
اُن کے بقول ویزہ فراہم کرنے کا حتمی فیصلہ متعلقہ حکومت ہی کرتی ہے اور اس معاملے میں بھی گیند بھارتی حکومت کے کورٹ میں ہے۔
انہوں نے اگلے سال امریکہ میں ہونے والے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فرد یا ملک کو امریکہ منع کردے کہ ویزہ نہیں ملے گا، تو آئی سی سی بھی کچھ نہیں کرسکے گا۔
اُن کے بقول ویزے کے اجرا میں تاخیر مایوس کن ہے، لیکن بی سی سی آئی اور آئی سی سی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ ٹاپ لیول معاملہ ہے اور وہیں سے حل ہو گا۔
چندریش نارائنن کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ہاتھ میں جس جس کا ویزہ تھا وہ انہوں نے نکلو ادیا جس میں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی، سپورٹ اسٹاف اور دو کمنٹیٹرز شامل ہیں۔
اسپورٹس صحافی وکرانت گپتا کہتے ہیں کہ پاکستانی صحافیوں کو ویزہ جاری کرنا چاہیے تاکہ وہ میگا ایونٹ کی رپورٹنگ کر سکیں۔
معروف اینکرپرسن راجدیپ سرڈیسائی نے بھی پاکستانی اسپورٹس جرنلسٹ کو ویزہ جاری نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اپنی پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، اگر پاکستان نے ایونٹ کے لیے کوالی فائی کیا تھا تو اس کے صحافیوں کو بھی بھارت آنے کی اجازت ملنا چاہیے تھی۔
انہوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ ایک اچھے میزبان ہونے کا ثبوت دیں اور پاکستانی صحافیوں کو ویزہ جاری کریں تاکہ وہ جلد اس میگا ایونٹ میں شامل ہو کر رپورٹنگ کر سکیں۔
فورم