رسائی کے لنکس

تہران میں سابق ساتھی کی خودکشی پر وی او اے فارسی سروس دل گرفتہ


 وائس آف امریکہ  کی فارسی سروس کے ایک  سابق ساتھی کیانوش سنجری  جنہوں  نے بدھ کے روز ایران کے آمرانہ حکمرانوں کے خلاف احتجاج میں، تہران کی ایک عمارت سے چھلانگ لگا  کر اپنی جان دے دی ۔
 وائس آف امریکہ  کی فارسی سروس کے ایک  سابق ساتھی کیانوش سنجری  جنہوں  نے بدھ کے روز ایران کے آمرانہ حکمرانوں کے خلاف احتجاج میں، تہران کی ایک عمارت سے چھلانگ لگا  کر اپنی جان دے دی ۔
  • وی او اے فارسی سروس کا اپنے سابق ساتھی کیانوش سنجری کی خودکشی پر صدمے اور غم کا اظہار۔
  • انہوں نے بدھ کو تہران کی ایک عمارت سے ایران کے آمرانہ حکمرانوں کے خلاف احتجاج میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دی تھی ۔
  • وہ، ایک سابق صحافی اور حقوق کے سر گرم کارکن تھے اور انہوں نے 2009 سے 2013 تک وی او اے فارسی کے واشنگٹن بیورو میں کام کیا تھا۔
  • وی او اے فارسی کی ڈائریکٹر لیلی سلطانی نے انسٹاگرام پر لکھا کہ وہ اور ان کا اسٹاف اپنے سابق ساتھی کے کھو جانے سے " دل گرفتہ اور بہت متاثر" ہے۔
  • VOA کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ وہ بھی سنجری کی موت کے بارے میں جان کر "بہت غمزدہ" ہیں۔
  • وی او اے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ سنجری کی موت پر "غم زدہ" ہے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ کی فارسی سروس نے اپنے ایک سابق ساتھی کیانوش سنجری کی خودکشی پر صدمے اور غم کا اظہار کیا ہے،جنہوں نے بدھ کے روز تہران کی ایک عمارت سے ایران کے آمرانہ حکمرانوں کے خلاف احتجاج میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی ۔

کیانوش سنجری، ایک 42 سالہ ایرانی، ایک سابق صحافی اور حقوق کے سر گرم کارکن تھے جنہوں نے 2009 سے 2013 تک وی او اے فارسی کے واشنگٹن بیورو میں کام کیا تھا ۔ وہ 2016 میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کے لیے ایران واپس چلے گئے تھے ۔

سنجری کو امریکہ میں کام کرنے سے پہلے اور بعد میں اپنی سرگرمی کی وجہ سے ایران میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہوں نے عوامی طور پر اس بارے میں بات کی تھی کہ کس طرح وہ قید تنہائی اور ایرانی حکام کی طرف سے دوسر ی بد سلوکیوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہوئے۔

VOA فارسی سروس کی ڈائریکٹر لیلی سلطانی نے انسٹاگرام پر لکھا کہ وہ اور ان کا اسٹاف اپنے سابق ساتھی کے کھو جانے سے " دل گرفتہ اور بہت متاثر" ہے۔

لیلیٰ سلطانی نے لکھا، "یہ تباہ کن نقصان وی او اے فارسی میں ہر ایک کے لیے انتہائی پریشان کن اور صدمے کا باعث ہے، خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کیانوش کے ساتھ قریبی طور پر کام کیا تھا ۔" سلطانی نے لکھا۔ کیانوش صرف 17 سال کے تھے جب انہیں گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قید تنہائی میں رکھا گیا ، اگرچہ وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں ، آزادی اور انسانی حقوق کے لیے ان کا جذبہ زندہ رہے گا۔‘‘

VOA کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ وہ بھی سنجری کی موت کے بارے میں جان کر "بہت غمزدہ" ہیں۔

ابرامووٹز نے X پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں لکھا ،" وی او اے کے ایک سابق صحافی اور اپنے ملک سے محبت کرنے والےکیانوش کو ایرانی حکومت کی طرف سے قید اور سخت جبر کا سامنا کرنا پڑا جو بالآخر ان کی موت کا باعث بنا۔ انہیں بہت زیادہ یاد کیا جائے گا۔

وی او اے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ سنجری کی موت پر "غم زدہ" ہے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔

ترجمان نے ایک ای میل میں کہا، "ایران میں ان کی اور نوجوانوں کی دوسری حالیہ خودکشیاں اس بات کی غماز ہیں کہ ایرانی نوجوانوں کی ایک ایسی حکومت سے مایوسی بڑھ رہی ہے جو ان کے انتہائی بنیادی حقوق کو دبا رہی ہے۔"

امریکی عہدےدار نے کہا "ہم ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ ایران میں بلا جواز زیر حراست تمام سیاسی قیدیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے ۔ ایرانی حکومت کی جانب سے ناقدین اور انسانی حقوق کے سر گرم کارکنوں کو خاموش کروانے کی مہم کو ختم ہوناچاہیے۔‘‘

کیانوش سنجری نے بدھ کی صبح اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پیغام پوسٹ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر عدالتی حکام نے شام سات بجے تک چار سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان نہیں کیا تو وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی "آمریت" کے خلاف احتجاج میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیں گے۔ اس دن ایسا کوئی اعلان نہیں آیا۔

بدھ کے روز شام سات بج کر بیس منٹ پر انہوں نے اپنے X اکاؤنٹ پر دو اور پوسٹس کیں، ان میں سے ایک تہران کے چارسو شاپنگ مال کمپلیکس کی چھت سے لی گئی تصویر تھی جس میں ان کے نیچے ایک پل اور گلی دکھائی دے رہی تھی ۔ دوسرے میں، کیانوش نے لکھا کہ وہ اس پوسٹ کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گے، جس میں انہوں نے یہ بھی کہا، "کسی کو بھی اپنی رائے کے اظہار پر قید نہیں کیا جانا چاہئیے۔ احتجاج ہر ایرانی شہری کا حق ہے۔

کیانوش کی آخری سوشل میڈیا پوسٹس کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں چارسو مال کے ساتھ ایک فٹ پاتھ پر ایک شخص کی لاش پڑی دکھائی دی ،جب کہ تماشائی جمع ہو گئے اور ایمرجنسی سروس کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے۔ باخبر ذرائع نے وی او اے فارسی کو بتایا کہ لاش کیانوش کی تھی، جنہوں نے چھت سے چھلانگ لگا کر خود کو ہلاک کر لیا تھا۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے تہران کے کرمنل افیئرز پراسیکیوٹر آفس کے سربراہ جج محمد شہریاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سنجری سے متعلق ایک "مشتبہ موت" کا مقدمہ کھول دیا ہے۔

ذرائع نے فارسی سروس کو بتایا کہ مال کا دورہ کرنے سے پہلے وہ تہران میں اپنے والدین کے گھر پر تھے ،جہاں کئی دوست ان سے ملنے گئے تھے اور ان کا خیال تھا کہ انہوں نےکیانوش کو اپنی جان لینے سے روک دیا تھا۔

حکومت کے خلاف احتجاج کے ایک اقدام کے طور پر سنجری کی موت پر دنیا بھر کے انسانی حقوق کے دوسرے کارکنوں نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

ایران میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کے لیے وقف امریکہ میں مقیم گروپ ، عبدالرحمٰن بورومند سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، رویا بورومند نے لکھا ، "اسلامی جمہوریہ بلاشبہ اس المناک موت کا ذمہ دار ہے۔ " وی او اے کو بھیجے گئے ایک بیان میں، بورومند نے کہا کہ سنجری جیل سے رہائی کے بعد سیاسی طور پر سرگرم تھے،"جیل میں قید دوسروں کے لیے اور سزائے موت کے خلاف بھی مہم چلا رہے تھے۔"

بورومند نے لکھا ،انہوں نے ہمیشہ ایران کو اپنے دل میں عزیز رکھا اور اسلامی جمہوریہ کی بربریت اور اپنی ذاتی زندگی کی مشکلات کو جبر کے خلاف اپنی لڑائی میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اپنی زندگی کے خاتمے اور اس پیغام سے جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑا، انہوں نے ہمیں اس تلخ حقیقت کی یاد دلائی اور ان کی مذمت کی جنہوں نے ان پر ظلم کیا اور جو خدا کی طرف سے حکومت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔"

وی او اے کی فارسی سروس نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG