''کئی بار تو ہم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے کلمہ پڑھ کر سناؤ پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے ہیں یا نہیں''۔ یہ کہنا ہے گلناز شیرازی کا جو لانڈھی کی رہائشی اور پولیو ورکر ہیں۔
18 دسمبر 2012 کی صبح گیارہ بجے جب پولیو ورکرز کی ٹیمیں اپنے معمول کے کام میں مصروف تھیں تو اس سے چند گھنٹے پہلے ان کی بھانجی مدیحہ بی بی نے ان سے درخواست کی کہ وہ آج کام سے جلدی واپس چاہتی ہیں۔ انھیں اپنی بیٹی کی کچھ ضروری خریداری کے لئے جانا ہے۔
اس روز گلناز کی دو بہنیں، بھابھی اور بھانجی بھی ان پولیو ٹیموں میں شامل تھیں جنھیں لانڈھی کے مختلف علاقوں میں بچوں کو ویکسین پلانے کا ہدف دیا گیا تھا۔
گلناز ناشتہ کرنے کے لیے اپنے گھر لوٹیں۔ ابھی وہ چائے پی ہی رہیں تھیں کہ انہیں فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ چونکہ اس علاقے میں فائرنگ کی آوازیں ایک معمول کی بات تھی اس لیے انہوں نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔
لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد انھیں موصول ہونے والی فون کالز سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ دو موٹر سائیکل سواروں نے ان کی بھابھی فہمیدہ اور بھانجی مدیحہ کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
عینی شاہدین کے مطابق موٹر سائیکل سوار خود بھی کم عمر تھے اور ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا، جس سے تاثر ملا کہ ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور انہیں پولیو ورکرز کی تصدیق کی ضرورت ہے۔
موٹر سائیکل سواروں نے گلی میں بیٹھے ایک بزرگ سے پوچھا کہ پولیو ورکرز کہاں ہیں۔ انہوں نے اپنے بچے کو ویکسین کے قطرے پلوانے ہیں تو بزرگ نے اشارے سے وہ جگہ بتائی جہاں مدیحہ اور فہمیدہ دروازے پر نشان لگا رہی تھیں۔ پھر فائرنگ ہوئی اور سب بدل گیا۔
گلناز 2010 سے پولیو ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ خاندان کی دو خواتین کے دن دہاڑے قتل کے بعد ان پر ملازمت چھوڑنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے ساتھیوں نے خوف سے یہ کام چھوڑ دیا۔ لیکن گلناز نے نہ صرف بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کا کام رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
''یہ میرا مشن بن چکا ہے۔ مجھے میرے اپنوں کی موت نے وہ حوصلہ دیا ہے پہلے کبھی بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ اب مجھے ایسے لگتا ہے کہ وہ دونوں میرے ساتھ ہیں۔ میں صرف یہ سوچتی ہوں کہ اگر میں یہ کام کرتی ہوں اور کوئی بھی بچہ جو ہمارے اس کام سے صحت مند ہو کر کل کو اس ملک کے کام آ سکا تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ موت تو برحق ہے۔ وہ تو آنی ہی ہے۔ اگر کسی مقصد کی راہ میں جان چلی جائے تو مجھے پرواہ نہیں''۔
ماضی میں پولیو ٹیموں پر حملوں کے بعد حکومت نے پولیو ورکز کو سیکورٹی دینے کے لئے ان کے ساتھ پولیس کے مسلح اہل کار تعینات کرنے شروع کیے۔ لیکن کئی بار یہ بھی ہوا کہ پولیس والے بھی حملہ آوروں کا نشانہ بن گئے۔
بعض انتہا پسند گروپس کی جانب سے پولیو مہم کی مخالفت کی وجہ سے اس کام میں خطرات ہیں۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ پولیو مہم کی ٹیموں کے لئے مردوں کی کے بجائے زیادہ خواتین کو ہی ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟
نیاز جدون عموماً خواتین پر مبنی پولیو ٹیم کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی ضرورت تب پڑتی ہے، جب کسی گھر کے افراد اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کریں، یا وہ پولیو ورکز کے ساتھ بدتمیزی کریں تو وہ گھر کے مردوں کو قائل کرنے کے لیے ان سے بات چیت کر سکیں۔
نیاز کا کہنا ہے کہ پولیو ٹیموں میں خواتین کو اس لیے رکھا جاتا ہے کیونکہ انہیں گھروں میں آسانی سے رسائی مل جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ گھر کی خواتین ان سے کھل کر بات کر سکتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی کئی سماجی پابندیوں اور روایات کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور ان حالات میں خواتین ورکرز ہی یہ کام زیادہ بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ کئی گھروں میں انہیں غیرشائستگی کا سامن کرنا پڑتا ہے۔ انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے، گالیاں تک دی جاتی ہیں، لیکن اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے انہیں پھر بھی جانا پڑتا ہے۔
نیاز جدون نے بتایا کہ کئی پولیو ورکرز کو غفلت برتنے پر ملازمت سے نکالا گیا ہے، لیکن ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ گئے لیکن وہ تعداد میں انتہائی کم ہے۔ میں نے اپنی پولیو ٹیموں کو ڈیوٹی میں کبھی غفلت برتتے نہیں دیکھا نہ ہی ان کے جذبے میں کبھی کمی نظر آئی۔ مجھے ان پر فخر ہے اور میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔
گلناز کی طرح دیگر خواتین بھی برسوں سے یہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہیں۔
ایک اور پولیو ورکر اسماء کہتی ہیں کہ کئی بار مجھے یہ بھی سننے کو ملا کہ کیا تمہارے گھر کے مردوں میں غیرت نہیں ہے جو تم سڑکوں اور گلیوں میں کام کے لیے خوار ہوتی پھر رہی ہو۔
کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا تعلق اچھے گھرانوں سے نہیں ہے اور انہیں ہمارے ساتھ بدتمیزی کرنے کا اختیار ہے۔ اب پولیس ہونے کی وجہ سے وہ جملے بازیوں سے ہماری روح کو چھلنی کرتے ہیں۔ کئی بار دل بہت کچھ کہنے اور کرنے کو چاہتا ہے۔ لیکن پھر ان ساتھیوں کی قربانی یاد آتی ہیں جو دوسروں کے بچوں کو پولیو سے بچانے کی کوشش میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہمیشہ کے لئے روتا چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئیں۔ہمیں ان سے حوصلہ اور ہمت ملتی ہے اور ہم ان چیزوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ پولیو مہم کے دوران کئی گھرانے یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ پولیس بھی ان کے دروازے پر آئے۔ پولیس کا آنا ان کے ہاں برا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں ہم پولیس کو خود سے کچھ فاصلے پر رکھتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر بلایا جا سکے، لیکن اس سے خطرہ تو بڑھ جاتا ہے۔
صولت بی بی لانڈھی کے علاقے میں مشہور مصالحہ گلی کی رہائشی اور مڈ وائف ہیں۔ کمیونٹی میں انہیں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بچوں کی پولیو اور خسرہ ویکسینیشن میں بہت تعاون کرتی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صولت بی بی نے بتایا کہ یہاں کے لوگ میری عزت کرتے ہیں مجھے اپنا بڑا مانتے ہیں۔ یہاں کے اکثر بچوں کی پیدائش میرے ہاتھوں ہوئی ہے اس لئے کمیونٹی میرا احترام کرتی ہے۔
ایک اور پولیو ورکر صائمہ کہتی ہیں کہ اس کام کا معاوضہ انتہائی قلیل ہے اور یہ مستقل ملازمت بھی نہیں ہے۔ ہمیں ہیلتھ الاونس اور سرکاری ملازموں کو ملنے والے دوسری سہولتیں بھی حاصل نہیں ہیں۔ ورکرز کی تنخواہیں 12 سے 16 ہزار تک ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ کام مالی مجبوری کی وجہ کر رہے ہیں۔ پیسہ ایک اہم ضرورت تو ہے لیکن اس کی خاطر کوئی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر باہر تو نہیں نکلتا۔ مشکلات اور تلخ رویوں کا سامنا بلاوجہ تو نہیں کرتا۔ یہ کام نہیں ایک مشن ہے اگر یہ صرف نوکری ہوتی تو گلناز اپنی بھابھی اور بھانجی کے قتل کے بعد یہ کام چھوڑ دیتی۔
صائمہ کہتی ہیں کہ ہم کسی ایوارڈ یا انعام یا نام کے لیے بلکہ اپنے ملک سے پولیو کو مٹانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس جنگ کو جیتنا ہمارا عزم ہے۔