پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما ذوالفقار مرزا ایک مرتبہ پھر اپنے کڑوے کسیلے بیانات اور پارٹی قیادت پر الزامات کے عوض شہ سرخیوں میں آگئے ہیں۔
سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’ذوالفقار مرزا کی جانب سے پچھلے کئی سالوں سے۔۔ مگر وقفے وقفے سے، یہ سلسلہ جاری ہے۔ پہلے ان کے نشانے پر متحدہ قومی موومنٹ تھی جبکہ اب پی پی پی ہے۔‘
تاہم، اس بار ذوالفقار مرزا کے الزامات کا سخت جواب دینے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراء اور ارکان سندھ اسمبلی بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔
پیر کے روز صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ممتاز جاکھرانی، مکیش چاؤلہ، ارکان سندھ اسمبلی امداد پتافی، طارق آرائیں، پارٹی رہنما حبیب الدین جنیدی، ذوالفقار قائم خانی اور منظور عباس نے بلاول ہاوٴس کے میڈیا سیل میں پریس کانفرنس کے دوران ذوالفقار مرزا کے الزامات کا جواب دیا۔
رہنماوٴں نے پریس کانفرنس کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ذوالفقار مرزا نے آئندہ بھی پارٹی قیادت کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کی تو کارکنوں کی جانب سے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا جائے گا۔
رہنماوٴں نے ذوالفقار مرزا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’بیان سے پہلے وہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی بیوی فہمیدہ مرزا اور بیٹے حسینن مرزا کو اسمبلیوں سے استعفیٰ دلوائیں۔ وہ جس تھالی میں کھا رہے ہیں اسی میں سوراخ کر رہے ہیں‘۔
رہنماوٴں کا مشترکہ موقف تھا کہ ذوالفقار مرزا سے استعفیٰ بدعنوانی کے سبب لیا گیا۔
بقول ان کے، ’ہم سیاست میں غلیظ، غیر پارلیمانی اور گندی زبان کا استعمال نہیں چاہتے۔ آج ذوالفقارمرزا جو کچھ بھی ہیں وہ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی بدولت ہیں۔‘
اس سے قبل ذوالفقار مرزا نے اتوار کی شام ایک نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ملک بچانا ہے تو پی پی کی قیادت کے خلاف ایکشن لینا ہوگا‘۔
انہوں نے سابق صدر پر منی لانڈرنگ کیس میں زیر حراست ماڈل ایان علی سے تعلق کا بھی الزام لگایا۔
بقول اُن کے، ’آصف علی زرداری سے دیرینہ دوستی میرا جرم ہے‘۔