گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
ہماری اگلی منزل یہودیوں کی دیوار ِگریہ تھی۔ وسیم حارة النصاریٰ کی پرپیچ گلیوں سے ہوتا ہوا مجھے دیوار ِگریہ تک لے گیا۔ دیوار ِگریہ کے باہر سیکورٹی کے انتظامات مسجد ِاقصیٰ اور کنیستہ القائمہ کی نسبت کہیں زیادہ تھے۔ دیوار ِگریہ داخل ہوتے وقت سیدھے ہاتھ پر مسجد ِاقصیٰ کا مٹیالا گنبد دکھائی دیتا ہے۔ یہاں مردوں اور خواتین کے داخلے کے الگ الگ مقامات ہیں۔ آپ کا سامان سکینر سے گزارا جاتا ہے اور سامان کی تلاشی بھی لی جاتی ہے۔
تلاشی کے مرحلے سے فارغ ہو کر اندر داخل ہوئی تو کچھ قدموں کے بعد سیدھے ہاتھ پر یہودیوں کی مشہور دیوار ِگریہ موجود تھی۔ میں سیدھی چلتی رہی اور وہاں پہنچ کر رک گئی جہاں خواتین عبادت میں مشغول تھیں۔ یہودی اس دیوار کو ’کوتل‘ یا مغربی دیوار کہتے ہیں۔ دیوار ِگریہ میں خواتین اور مرد حضرات کی عبادت کے لیے الگ حصے مختص کیے گئے ہیں۔ سیدھے ہاتھ پر خواتین جبکہ بائیں ہاتھ پر یہودی مرد حضرات عبادت کرتے ہیں۔ بیچ کا حصہ رکاوٹ لگا کر بند کیا گیا ہے۔
دیوار ِگریہ دراصل یہودیوں کے لیے Temple Mount کی نسبت سے محترم ہے اور ہیکل ِسلیمانی کی بچی ہوئی نشانی ہے۔ ہیکل ِسلیمانی کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں شروع ہوئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ختم ہوئی۔ اور اسی نسبت سے اسے ہیکل ِسلیمانی کہا گیا۔ روایات کے مطابق روم اور یہودیوں کی پہلی بڑی جنگ میں یروشلم پر قبضے کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود یہ دیوار تباہی سے بچ گئی تھی۔
یروشلم پر قبضے کے بعد رومیوں نے یہودیوں کو یروشلم سے بے دخل کر دیا اور انہیں بہت کم یہاں آنے کا موقع دیا جاتا تھا۔ یہودی اس صورتحال پر دل گرفتہ اور شدید افسردہ تھے اور جب بھی آتے اس دیوار سے لپٹ کر روتے اور گریہ و زاری کرتے تھے اور اسی نسبت سے اس دیوار کو دیوار ِگریہ کا نام دیا گیا جبکہ یہودی اسے مغربی دیوار کہتے ہیں۔
میں خواتین والے حصے میں ایک کرسی سنبھال کر بیٹھ گئی اور یہودی خواتین کو انکی دیوار مقدس پر عبادت کرتا دیکھنے لگی۔ بہت سی خواتین دیوار سے لگی کھڑی منہ میں کچھ کلمات ادا کر رہی تھیں اور چند خواتین رو بھی رہی تھیں۔ بہت سی خواتین نے اس جگہ کے تقدس کی مناسبت سے اپنے سروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے جلدی سی کچھ تصویریں کھینچیں اور ایک دو ویڈیو کلپس بھی بنا ڈالے۔ ابھی ہاتھ اوپر کرکے مردوں کے حصے کی تصویریں بنانے میں مصروف تھی کہ کسی نے پیچھے سے میری کمر پر زور کا ہاتھ مارا۔ حیران ہو کر پلٹی، تو ایک معمر یہودی خاتون نے غصے سے کہا، ’آپ تصویریں نہیں کھینچ سکتیں۔ میں حیران رہ گئی، ’مگر کیوں؟‘ ۔ ’کیونکہ آج شابات ہے‘۔ تو گویا ہفتے کے روز نہ صرف گرم کھانا منع ہے بلکہ دیوار ِگریہ پر تصاویر کھینچنا بھی ممنوعات میں سے ہے۔
دیوار ِگریہ بڑے بڑے پتھروں پر مشتمل ہے جن کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ ہے اور درزیں بنی ہوئی ہیں۔ یہودی انہی درزوں میں اپنی دعائیں اور مرادیں اس یقین کے ساتھ رکھتے ہیں کہ اس مقدس مقام کی برکت سے وہ دعائیں قبول ہوں گی۔ یہ رواج تقریبا تین سو برس پرانا ہے۔ میرے سامنے بہت سی خواتین اپنے ہاتھوں میں پکڑی دعاؤں کی عرضیاں ان درزوں میں اُڑس رہی تھیں۔ سال میں دو مرتبہ ان درزوں کی صفائی کی جاتی ہے، دعاؤں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور انہیں جبل الزیتون میں دفنا دیا جاتا ہے۔
مردوں کے حصے میں غلغلہ زیادہ تھا۔ مرد حضرات اونچی آواز میں عبادت کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔ بہت سے مردوں نے سفید کپڑے سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ وہ دیوار کے ساتھ گم سم کھڑے تھے اور دیوار کو چوم رہے تھے۔ یہاں بھی مرد حضرات عقیدت سے اپنی دعائیں درزوں میں بھر رہے تھے۔ جو یہودی دیوار ِگریہ تک نہیں پہنچ پاتے وہ مختلف ویب سائیٹس کے ذریعے نذرانے کے ہمراہ اپنی دعائیں بھیجتے ہیں، جنہیں ان کے ایماء پر دیگر یہودی یہاں آکر درزوں میں اُڑس دیتے ہیں۔
اچانک میری نظر شلوار قمیض میں ملبوس چند خواتین پر پڑی جو دیوار ِگریہ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ معلوم ہوا یہ بھارت سے تعلق رکھنے والی یہودی خواتین تھیں۔ خواتین اپنی عبادت مکمل ہونے کے بعد الٹے قدموں پیچھے کی طرف جا رہی تھیں تاکہ دیوار کی طرف پیٹھ نہ ہو۔ گویا یہ بھی دیوار کی تعظیم کا ایک انداز تھا۔
مغرب کا وقت ہو چلا تھا۔ میں نے دیوار ِگریہ پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور باہر نکل پڑی۔ اندھیرا پھیلنے لگا تھا، مجھے آسمان پر تین ستاروں کا بے صبری سے انتظار تھا تاکہ چائے پی کر اپنے ہوش بحال کر سکوں۔ یوں باہر کی طرف چل پڑی جہاں عبدالقادر منتظر کھڑا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔