وائٹ ہاؤس کی مشیر، کیلیانے کونوے کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی حمایت کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ سابق صدر براک اوباما نے نیو یارک میں واقع ٹرمپ ٹاور ہوٹل کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے احکامات دیے تھے۔
پیر کی علی الصبح ’سی این این‘ کے نشر کردہ انٹرویو میں، کونوے نے کہا کہ ’’میرا کام ثبوت پیش کرنا نہیں ہے۔ یہ کام تفتیشی اداروں کا ہے‘‘۔
میزبان، کرس کئومو کے سوال پر ، کونوے نے یہ نہیں بتایا آیا ٹرمپ کے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے پیر کی شام تک وائٹ ہاؤس کا اجلاس منعقد ہوگا، جیسا کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی نے حتمی تاریخ کا تعین کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بیان ایک ہفتہ قبل ٹوئٹر پر دیا تھا۔
پیر کی صبح ٹیلی ویژن پر آنے کے بعد، کونوے نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ’’ہمیں اِس بات پر اطمینان ہے کہ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹیاں چھان بین کر رہی ہیں؛ اور بیان دیں گی‘‘۔
نہ تو وائٹ ہاؤس، ناہی انٹیلی جنس کے سینئر اہل کاروں نے کوئی اطلاع فراہم کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وائر ٹیپنگ ہوئی، اور اوباما کے ایک ترجمان نے الزام کو ’’سریحاً غلط‘‘ قرار دیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سرکردہ رُکن، ایڈم شِف، جن کا تعلق کیلی فورنیا سے اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، اتوار کے روز ’اے بی سی نیوز‘ کو بتایا کہ اُنھیں کوئی ثبوت نظر نہیں آیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یا تو صدر نے یہ الزام گھڑا ہے، یا پھر مزید پریشان کُن بات یہ کہ صدر یہی سمجھتے ہیں‘‘۔
اتوار کے روز سینیٹر جان مکین نے، جن کا تعلق ایریزونا سے ہے، ’سی این این‘ کو بتایا کہ ’’صدر کے پاس دو راستے ہیں: الزام واپس لیں یا اطلاع فراہم کریں، جس بات کا امریکی عوام کو حق حاصل ہے۔ چونکہ اگر اُن کے پیش رو، صدر اوباما نے کوئی قانون توڑا، تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔‘‘
مکین نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ الزامات درست ہیں‘‘۔