اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے باعزت بری کر دیا ہے۔
احتساب عدالت نے جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو سات سال اور کپیٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعرات کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ سنایا۔
عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائیں ختم کرتے ہوئے انہیں کیس سے بری کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
دورانِ سماعت قومی احتساب بیورو (نیب) پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی رجسٹریشن کی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ تصدیق شدہ دستاویزات ہیں؟
مذکورہ دونوں کمپنیوں سے متعلق نیب کا دعویٰ تھا کہ اس کی بینیفشل اونر مریم نواز تھیں۔
'کمپنیوں کا نواز شریف اور مریم سے تعلق ثابت کر دیں'
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے نیب کی پیش کردہ دستاویزات پر سوال اٹھایا کہ جو دستاویزات دکھائی گئیں ان پر لکھا ہے کہ یہ کسی کے 'کیئر آف' سے آئیں جس پر عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا جن کے ذریعے یہ دستاویزات آئیں ان کا بیان لیا؟ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں انہیں لانے کی ضروت نہیں تھی، اگر ملزمان نے جرح کرنی تھی تو لے آتے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پراپرٹیز کی اصل ملکیت تو کمپنیز کی ہے، یہ بات تو واضح ہو گئی۔ اب کمپنیز کا نواز شریف یا مریم نواز سے تعلق ثابت کر دیں۔
فاضل جج نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ "آپ کہہ رہے ہیں چاروں اپارٹمنٹس کی اونرشپ ان کمپنیوں کے نام ہے اور بینیفشل اونر مریم ہے تو نواز شریف کہاں ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے کہا 'نہیں'۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ مطلب کیس ختم؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مریم نواز کو بینیفشل اونر لکھنا ایک رائے ہے ،کوئی شواہد موجود نہیں۔ نیب نے جو کیس بنایا ہے وہ تو مریم نواز کے خلاف ہے نواز شریف کے خلاف نہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر مریم نواز کے خلاف کیس ہو بھی تو وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں تو یہ کیس کیسے بنتا ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے نواز شریف کی اعانت کی۔ ہمارا کیس ہے مریم نواز بطور نوازشریف کی بے نامی ملکیت رکھتی تھیں۔
اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بے نامی پر نہ جائیں اس میں آپ خود پھنس جائیں گے۔ براہِ کرم کوئی شواہد دکھا دیں، ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں پھر اس کے شواہد دے دیں۔ جس پر پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے کہا مائی لارڈ یہی جو دستاویزات آپ کو دیں یہ ثبوت ہی ہیں۔
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ برطانیہ کے محکمۂ داخلہ کا خط ریکارڈ پر موجود ہے جس کے مطابق مریم نواز ہی بینیفشل مالک ہیں لیکن مریم کے اپنے ذرائع آمدن نہیں تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر خط کو درست بھی مان لیں تو کیا ثبوت ہے کہ مریم آج بھی بینیفشل مالک ہیں؟ یہ کیس تو آپ نے ثابت کرنا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نیب لندن سے آئی دو دستاویزات کو شواہد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس ڈاکومنٹ پر تو دعویٰ ڈگری نہیں ہوتا، کریمنل کیس کیسے بن سکتا ہے؟ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ نیب کا کیس مختلف ہے، ہم شریف فیملی کے مؤقف کو درست تسلیم نہیں کرتے۔
فاضل جج نے کہا کہ نیب کا کیس پھر صرف دو خطوط پر ہے جو لندن سے آئے۔ اب ان خطوط کے ذریعے نواز شریف کا تعلق کہیں دکھا دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر مرکزی کیس ثابت ہو گا تو پھر نیب کا تعلق آئے گا۔ اگر نواز شریف کا تعلق نہیں تو پھر مریم نواز کے خلاف نیب کا کیس نہیں بنتا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نیب کا کیس شاید ٹھیک ہو لیکن نیب ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر
تین اپریل 2016 کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے ساڑھے گیارہ لاکھ سے زائد خفیہ دستاویز جاری کی تھیں۔ ان دستاویزات میں مبینہ طور پر آٹھ آف شور کمپنیوں کا تعلق پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان سے بتایا گیا تھا۔ ان دستاویزات میں برطانیہ میں ایون فیلڈ فلیٹس کی خریداری کا معاملہ بھی شامل تھا۔
یہ دستاویز سامنے آنے کے بعد نواز شریف کو حزبِ اختلاف کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ 24 جون 2016 کو اس وقت کی حزبِ اختلاف تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں نواز شریف کی نااہلی اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
اگست 2016 میں اپوزیشن کی جماعتوں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پاناما پیپزر معاملے پر عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
عدالت میں درخواست دائر کرنے کے بعد تحریک انصاف نے ستمبر میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور ان کے استعفی کے لیے 30 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر کو پاناما پیپرز معاملے میں در خواستیں قبول کرنا شروع کیں اور 28 اکتوبر 2016 کو ان کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے نواز شریف کو نااہل کرنے کی رائے دی جب کہ اکثریتی فیصلے میں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر الزامات کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو قابلِ وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ایون فیلڈ جائیدادوں، جدہ میں قائم العزیزیہ کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے معاملے میں احتساب عدالت میں کارروائی کا فیصلہ جاری کر دیا تھا۔
آٹھ ستمبر2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنسز العزیزیہ ریفرنس، فلیگ شپ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیے گئے تھے۔
احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو لندن میں موجود ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا مالک ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔ ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی تو قرار دیا تھا لیکن مریم نواز کو 7 سال کی سزا جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروانے پر نہیں بلکہ جرم میں اعانت کرنے پر سنائی گئی تھی۔