بھارت میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت کے بابری مسجد انہدام سے متعلق فیصلے میں تمام ملزموں کو بری کیے جانے پر اس واقعے کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ منموہن سنگھ لبراہن نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ منموہن سنگھ لبراہن نے فیصلے کو ناقابلِ فہم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 28 برس بعد دیے جانے والے فیصلے میں تمام 32 ملزموں کو عدم شواہد کی وجہ سے الزامات سے بری کر دیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں منظم سازش کے الزام کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی بی آئی اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکی۔
جسٹس ریٹائرڈ منموہن سنگھ (ایم ایس) لبراہن کے مطابق یہ کمیشن 16 دسمبر 1992 کو قائم کیا گیا تھا اور اس کی رپورٹ 30 جون 2009 کو اس وقت کے وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کو پیش کی گئی تھی۔
جسٹس ریٹائرڈ ایم ایس لبراہن نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ تحقیقات کے دوران وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بابری مسجد کے انہدام کے لیے ایک سازش تیار کی گئی تھی اور اس پر ان کو آج بھی اتنا ہی یقین ہے جتنا رپورٹ لکھتے وقت تھا۔
جسٹس (ر) ایم ایس لبراہن کے بقول ان کے سامنے جو ثبوت پیش کیے گئے تھے اس سے یہ بالکل واضح تھا کہ مسجد کو منظم منصوبہ بندی کے تحت گرایا گیا۔ انہیں یاد ہے کہ اوما بھارتی نے انہدام کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اس وقت کے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ، وغیرہ کو موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں اس وقت کی ریاستی حکومت بھی ملوث تھی۔
تحقیقاتی کمیشن کے بعض اہم اقتباسات
جسٹس ریٹائرڈ منموہن سنگھ لبراہن کی انکوائری رپورٹ کے مطابق شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اس مہم کے لیے جتنی رقم کی ضرورت تھی، وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ذیلی تنظیموں کی نے فراہم کی تھی۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے رہنماؤں نے بھی وقتاً فوقتاً پیسے دیے۔ اربوں روپے اکٹھے کیے گئے اور انہیں 6 دسمبر 1992 کے واقعات کو انجام دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس تحقیقاتی کمیشن کو جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کی وجہ سے لبراہن کمیشن بھی کہا جاتا ہے۔
اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سرمایہ حاصل کرنے سے لے کر عمارت گرانے تک تمام کارروائیوں کو چلانا واضح طور پر ایک منظم منصوبے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کو، جنہیں کارسیوک کہا گیا، وہاں بلانا اور ایودھیا اور فیض آباد میں ان کے قیام کا بندوبست کرنا، پوری طرح منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔ مندر تحریک کے رہنماؤں کے اس دعوے میں کوئی دم نہیں ہے کہ متنازع عمارت کا انہدام کارسیوکوں نے غصے اور جذبات میں آ کر کیا تھا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ حملے کا طریقہ، مسجد منہدم کرنے کے لیے بڑی تعداد میں آئے کار سیوکوں کے لیے جگہ کی فراہمی، گنبدوں میں گھسنے والوں کی شناخت پوشیدہ رکھنا، گنبد کے نیچے سے مورتیوں اور کیش کے ڈبوں کو ہٹانا اور انہیں بعد میں عارضی مندر میں دوبارہ رکھنا، مندر کی تعمیر اور انہدام کے لیے اوزار و سامان کو اکٹھا کرنا، یہ تمام باتیں واضح طور پر اس نتیجے کی جانب لے جاتی ہیں کہ عمارت گرانے کا کام پوری تیاری اور پیشگی منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا تھا۔
رپورٹ میں درج ہے کہ تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کے تمام واقعات جو رام کے جنم استھان پر پیش آئے، ایک منظم منصوبے کا نتیجہ تھے۔ کچھ غلط قسم کے رہنماؤں نے رام کے نام پر عوام کے گروہ کو ایک بے قابو بھیڑ میں بدل دیا تھا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ عمارت کو دھوکے اور ڈھٹائی کے ساتھ تباہ کیا گیا۔ یہ کارروائی ایک جمہوری انداز میں منتخب حکومت کے لیے مناسب نہیں تھی۔ جب کوئی حکومت اپنی خواہش کو چھپانے کے لیے گھٹیا طریقے اپناتی ہے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت کا کام قانون کی رضا مندی اور عوام کی توثیق سے محروم ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اور ان کی کابینہ کے رفقا کو اس کا پورا احساس تھا کہ ان کا یہ کام پوری طرح غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ کلیان سنگھ، ان کے وزرا اور بعض چنندہ افسران نے ایسے حالات پیدا کیے کہ ان کا عمارت کے انہدام کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے دو فرقوں کے درمیان کی خلیج کو بہت وسیع کر دیا۔ جس سے پورے ملک میں قتل عام ہوا۔ انہوں نے رہاست کو قانونی، اخلاقی اور آئینی کنٹرول سے آزاد کر دیا اور عملاً ایک عبادت گاہ کا انہدام کرا دیا جس کے بعد انارکی پیدا ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے حفاظتی انتظامات ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے اہل تھے۔ لیکن ان انتظامات کو بے اثر کر دیا گیا۔ کلیان حکومت نے مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ میں دروغ گوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پولیس اور انتظامیہ سر عام آر ایس ایس کے کاموں کی حمایت کرتے رہی۔ آئین کے وقار کو مجروح کرنے والوں کے خلاف قانون کے استعمال کی بجائے ان کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق کلیان سنگھ نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی ان افسران کا تبادلہ شروع کر دیا تھا جو ایودھیا میں صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے حق میں تھے۔ فیض آباد اور ایودھیا میں نئے افسروں اور ہمدرد صوبائی آرمڈ کانسٹیبلیری (پی اے سی) کو تعینات کیا گیا، تاکہ عمارت کا انہدام کیا جا سکے۔ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ جن کے ہاتھ میں ڈنڈا یا بندوق ہو، وہ بھی دوستانہ جذبہ رکھنے والے ہوں اور انہدام میں کوئی خطرہ نہ بنیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس روز جو وردی پوش کارسیوک بن گئے تھے، انہیں حکم تھا کہ وہ طاقت کا استعمال نہ کریں اور کوئی بھی حالات ہوں، کارسیوکوں اور ان کے لیڈروں پر گولی نہ چلائیں۔ اس طرح پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا بھی استعمال نہیں کیا۔ تشدد پر آمادہ کارسیوکوں سے بچنے کے لیے پولیس کو جو رکاوٹیں دی گئی تھیں، وہ انہوں نے کارسیوکوں کو دے دیں اور کارسیوکوں نے ان کا خوب اور غلط استعمال کیا۔
رپورٹ کے مطابق جب ہنگامہ آرائی شروع ہوئی تو پولیس افسران وہاں سے ہٹ گئے اور وہاں ایسے حالات بنائے گئے کہ متنازع عمارت تک رسائی آسان ہو جائے۔ سی سی ٹی وی کیمروں اور دیگر سرکاری آلات کو بیکار کر دیا گیا تاکہ شرپسندوں کی شناخت چھپی رہے اور وہ عمارت تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ حکومت نے اس وقت کے حالات کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک بھی ویڈیو کیمرے کا انتظام نہیں کیا۔ حکومت و انتظامیہ کے اقدامات نے کارسیوکوں کو نڈر کر دیا تھا۔ انہیں اپنے تحفظ کی کوئی فکر نہیں تھی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ مجموعی طور پر 6 دسمبر 1992 کو آئین و قانون کے وقار کے تحفظ کے کسی ارادے اور نیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔