گزشتہ تین روز کے دوران وفاقی دارالحکومت میں برسات کے بعد بدھ کو قدرے گرمی تھی۔ شہر کی موسم کی طرح سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں جاری عدالتی کارروائی کے دوران بھی درجۂ حرارت میں اسی طرح اتار چڑھاؤ آتے رہے۔
خاص طور پر اس وقت کمرۂ عدالت کی فضا میں بدلی بدلی محسوس ہوئی جب اٹارنی جنرل عثمان منصور نے اپنے دلائل میں ازخود نوٹس کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے بتایاکہ سپریم کورٹ نے 1973ء کے بعد سے 232 ازخود نوٹس لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اسٹیل مل کی نج کاری کالعدم قرار دینے کے بعد کرپشن پر ازخود نوٹس لیا، ازخود نوٹس لیا تو اسٹیل ملز منافع میں تھی۔ سو موٹو کے بعد سے آج تک اسٹیل ملز 206 ارب کا نقصان کر چکی ہے۔اس بات پر سپریم کورٹ کے کئی ججز جذبات میں آ گئے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس کارروائی کو سپریم کورٹ کے خلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
اس سے قبل بھی ججز کے وکلا سے سوالات اور پیچیدہ قانونی مسائل پر آرا کے اظہار سے عدالت کا ماحول گرم و سرد ہوتا رہا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ کی طویل کارروائی قومی ٹیلی وژن پر نشر ہونے کی وجہ سے یہ مناظر براہ راست لوگوں تک پہنچ رہے تھے۔ بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کا فیصلہ سنایا تو اسے بھی براہ راست نشر کیا گیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں فل کورٹ کی پانچ سماعتوں کے دوران دن بھر کارروائی جاری رہی اور سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز کے یہاں مصروف ہونے کی وجہ سے کسی عدالت میں کسی اور مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی۔
اس بات کا ادراک چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز کو بھی تھا، اسی لیے چیف جسٹس نے منگل کی سماعت میں کہا تھا کہ روزانہ زیرالتوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
عدالت نے بدھ کے روز بھی طویل سماعت کی اور شام کے وقت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم میں سے کسی نے کسی کی دل آزاری کی ہو تو معذرت خواہ ہیں۔ روانی میں بہت کچھ ہو جاتا ہے۔اس کیس کے بارے میں ہم آپس میں مشاورت کریں گے۔ اتفاقِ رائے ہوا تو آج ہی فیصلہ سنائیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج اتفاقِ رائے نہیں ہوتا تو فیصلہ محفوظ سمجھیں بعد میں سنایا جائے گا ۔ تاہم کچھ دیر بعد ہی عدالتی عملے کی طرف سے شام ساڑھے پانچ بجے فیصلہ سنانے کا اعلان کردیا گیا۔
شام 6 بجکر 25 منٹ پر ججز کمرہ عدالت میں آئے تو اس کیس میں شریک تمام وکلا روسٹرم کے سامنے آگئے اور چیف جسٹس نے تاخیر کی معذرت کرنے کے بعد آرڈر آف دی ڈے پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے آج اٹارنی جنرل کے دلائل کے حوالے سے بتایا اور اس کے بعد انہوں نے کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
فیصلہ سننے کے بعد تھوڑی سی کنفیوژن تھی کہ مرکزی معاملہ یعنی ایکٹ برقرار تو رکھا گیا ہے لیکن اپیل کے حق سے متعلق کچھ ابہام تھا جو تحریری فیصلہ آنے بعد دورہوگیا۔
عدالتی فیصلہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں سپریم کورٹ نےپارلیمنٹ کی قانون سازی کو تسلیم کرلیا ہے۔ایکٹ میں سپریم کورٹ کے مقدمات کے مقرر کرنے کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر تین 3 رکنی کمیٹی کو دیا گیا ہے۔ عدالت کے ازخود نوٹس لینے سے متعلق آرٹیکل 184/3 کے تحت آئندہ ہونے والے فیصلوں پر اپیل دائر کی جاسکے گی اور اس کے لیے نیا بنچ تشکیل دیا جائے گا۔
سینئر ترین ججز پر مشتمل تین رکنی کمیٹی اکثریت کی بنیاد پر بینچ کی تشکیل کا فیصلہ کرے گی۔ اس کمیٹی میں چیف جسٹس آف پاکستان اور دو سینئر ججز شامل ہوں گے۔
ازخود نوٹس کے لیے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت آنے والا ہر معاملہ اسی کمیٹی کے سامنے رکھا جائےگا اور کم از کم تین ججز پر مشتمل بینچ ان مقدمات کی سماعت کرے گا۔
اس کے علاوہ آئینی تشریح سے متعلق کیسز میں پانچ رکنی ججز سے کم بینچ تشکیل نہیں دیا جائے گا۔ قانون کے مطابق فیصلے کے خلاف 30 روز میں اپیل دائر کی جائے گی، اپیل کو 14 دنوں میں اصل بینچ سے بڑے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
ایکٹ کی شق 5/2 کے مطابق متاثرہ فریق کو 184/3 کے مقدمات میں فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا جائے گا۔ نظر ثانی کی درخواست میں نیا وکیل کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ اسی طرح فوری نوعیت کے مقدمات کو 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اپیل کا حق دینے کی شق بھی برقرار رکھی ہے تاہم ماضی میں ہونے والے فیصلوں پر اپیل کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
پارلیمان سپریم ہے؟
اس فیصلے کو اس اعتبار سے اہمیت دی جارہی ہے کہ اس کے بعد پاکستان کی پارلیمان کو سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی کا حق مل جائے گا۔
عدالت کی طرف سے حکم امتناع کے بعد قانون ساز اور پارلیمنٹرین اس بات پر پریشان تھے کہ اگر وہ سپریم کورٹ کے حوالے سے کوئی قانون بناتے ہیں تو عدالت اس قانون کو کالعدم کر سکتی ہے۔ لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھنے کے فیصلہ سے پارلیمان کے حق کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔
کمرہ عدالت کے باہر سینئر صحافی حسنات ملک سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو اس کا حق واپس ملنا بہت بڑی بات ہے کیوں کہ اس کے بغیر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سب سے طاقتور شخصیت تھے۔ لیکن سپریم کورٹ میں قواعد کے تعین سے متعلق چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کم کرلیے ہیں۔
کچھ سوال باقی ہیں
پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سو موٹو اختیارات کے دیے گئے ماضی کے فیصلوں میں بھی اپیل کا حق دیا گیا تھا۔
قانون کی اس شق کی وجہ سے سیاسی و قانون حلقے یہ توقع کررہے تھے کہ نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس اور دیگر سیاست دانوں سے متعلق فیصلوں میں اپیل کا حق مل جائے گا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ماضی کے حوالے سے اپیل کاحق دینے کے معاملے کو مسترد کردیا۔
اس بارے میں بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کے فیصلوں پر اپیل کا حق دینے سے پنڈورا باکس کھل سکتا تھا اور سینکڑوں کیسز سپریم کورٹ میں اپیل میں آسکتے تھے اس لیے عدالت نےیہ معاملہ نہیں چھیڑا۔
اس فیصلے کا اطلاق کب سے ہوگا یہ بات تفصیلی فیصلہ میں سامنے آئے گی کیوں کہ 10 اپریل کو کی جانے والی یہ قانون سازی 21 اپریل کو صدر مملکت کے دستخط ہوئے بغیر قانون کا درجہ حاصل کرچکی تھی۔
لیکن 13 اپریل کو اس وقت کے چیف جسٹس نے اس پر حکمِ امتناع جاری کردیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس قانون کا اطلاق اس کی منظوری کے دن سے ہوتا ہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ کی جانب سے اسے بطور قانون بحال کرنے کے دن سے۔
فورم