پاکستان میں رواں سال انتخابات کا سال ہے اور حکومت کو سیاسی، معاشی، داخلی اور خارجی کئی محاذوں پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں اگر معاشی چیلنج کی بات کی جائے تو سب سے بڑھ کر مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح ہے جس کے باعث حکمراں اتحاد کو اپنی مقبولیت کھونے کا خدشہ ہے۔
مہنگائی کی اس تاریخی لہر سے غریب اور متوسط طبقہ ہی نہیں بلکہ اب معقول آمدنی رکھنے والے گھرانے بھی متاثر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
یکم جون کو ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 38 فی صد پر جا پہنچی جو اس سے قبل مارچ میں 36 فی صد پر تھی۔ اس حوالے سے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ مہنگائی کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ہوئی۔
دوسری جانب حکومت کو اگلے ہفتے اپنا دوسرا اور انتخابات سے قبل آخری بجٹ پیش کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں حکومت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اسی سوچ کے تحت ایک توسیعی بجٹ بنانے میں مصروف ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے بجٹ خسارے کے اہداف سے کہیں زیادہ ہوگا۔
اس میں سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں اور مراعات میں اضافے، سبسڈیز، نئی ترقیاتی اسکیمز اور پرانی ترقیاتی اسکیموں کی تکمیل کے لیے بھاری فنڈ زمختص کیے جائیں گے جب کہ محصولات کا ہدف بھی آئی ایم ایف کی طرف سے آخری جائزوں میں طے کیے گئے ہدف سے کم رکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم نے آٹھ ماہ سے تعطل کے شکار قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر سے خود بھی رابطہ کیا ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ فنڈ کی جانب سے پروگرام بحال کرنے کی صورت میں پاکستان تمام اہداف حاصل کر لے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے قرض پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے جہاں مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کو ادائیگیوں کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے وہیں اسے بیرونی قرض کی واپسی کے لیے سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے۔
ایسی صورت میں حکومت نے ڈالر کے اخراج کو روکنے کے لیے درآمدات پر قدرے سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں جس کے باعث غذائی اشیا، ادویات اور ایندھن کے علاوہ تقریباً سبھی اشیا کی بیرون ملک سے آمد بند ہے یا انتہائی محدود ہے اور اس سے معاشی پہیہ تقریبا رُک چکا ہے۔
'لگتا ہے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی'
کراچی میں مقیم میکرو اکنامک تجزیہ کار سلمان نقوی کا خیال ہے کہ ایک جانب حکومت آئی ایم ایف کو پروگرام کی بحالی کے لیے اعلیٰ سطح کی درخواست کررہی ہے۔
دوسری طرف واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ حکومت پروگرام بحالی کی پیشگی شرائط پوری کرنے کے بجائے اس سے دور ہو رہی ہے۔
ان کے خیال میں اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے میں اب کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کی کال پر بھی آئی ایم ایف کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کرنے کے لیے پاکستان کے دوست ممالک سے تحریری ضمانت طلب کی تھی۔
لیکن اس میں سے پاکستان اب تک تین ارب ڈالرز ہی کے وعدے حاصل کرپایا ہے جب کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اوپن اور انٹر بینک مارکیٹ میں شرح تبادلہ کا فرق زیادہ ہونے پر بھی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔
حکومت کو ڈالر کی مصنوعی قیمت کے بجائے اسے مارکیٹ کی بنیاد پر تعین کرنے کی پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ معاشی ماہرین کے مطابق اسی طرح مہنگائی میں مسلسل اضافے پر شرح سُود کو مزید ایک فی صد بلند کرنے کی بھی شرط عائد کی گئی ہے۔
وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ورلڈ بینک اور سیلاب متاثرین کی امداد کے وعدوں سے ساڑھے چار ارب ڈالرز کا انتظام کر لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ بقیہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا بندوبست آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہونے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔
'پاکستان کو ایک اور پروگرام کی طرف بڑھنا ہو گا'
معاشی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ معیشت کے مزید سکڑنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو اگلے مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں قرضوں کی واپسی میں شدید مشکلات ہوں گی۔ لہذٰا پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس ایک اور پروگرام کے لیے جانا پڑے گا اور اس میں اس سے کہیں زیادہ رقم کی ضرورت ہوگی جو اس پروگرام میں رکھی گئی ہے۔
لیکن ایسے میں اگلے پروگرام میں پاکستان کو آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیال رہے کہ آئندہ مالی سال میں پاکستان کو اپنے ذمے عالمی مالیاتی اداروں اور دو طرفہ قرضوں کی مد میں تقریباً 25 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں جب کہ اس میں اگر جاری کھاتوں کا بھی ممکنہ خسارہ بھی شامل کرلیا جائے تو یہ رقم 30 ارب ڈالر سے تجاوز کرجاتی ہے۔
معاشی تجزیہ کار عبدالعظیم احمد کا خیال ہے کہ اگر اس ماہ میں نواں جائزہ مکمل ہو جاتا ہے تو یہ فریقین کے درمیان اعتماد کے فقدان کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے جو اگلے پروگرام کے لیے ضروری ہے۔
ان کے بقول وقت کی کمی کے باعث اب یہ کافی مشکل لگتا ہے اور اب آنے والے انتخابات کے بعد جس کی بھی حکومت بنے اسے یہی امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان کو آئندہ پروگرام میں جانے کے لیے سخت شرائط کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔