عالمی ادارہ صحت نے ڈبوں میں بند خوراک ، بیکری کی اشیا ء اور پکانے کے تیل اور مارجرین وغیرہ میں عمومی طور پر پائے جانے والے ایک مصنوعی زہریلے کیمیکل کو مکمل طور پر ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرانس فیٹ نامی یہ کیمیکل ہر سال پانچ لاکھ افراد کی قبل از وقت اموات کی وجہ بنتا ہے ۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں پانچ ارب لوگ اس زہریلےکیمیکل سے متاثر ہورہےہیں جس کی وجہ سے دل کی بیماریوں اور اموات کے خطرے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زیادہ ترمصنوعی ٹرانس فیٹ جسے بناسپتی گھی یا ٹھوس چربی بھی کہا جاتا ہے، در اصل سبزیوں کے تیل میں ہائیڈروجن گیس کی کچھ مقدار شامل کر کے تیار کی جاتی ہے جس سے تیل کمرے کے درجہ حرارت میں ٹھوس شکل اختیارکر لیتا ہے۔
جزوی طور پر ہائیڈروجن پر مشتمل یہ تیل یا بناسپتی گھی سستا ہوتا ہے اور اس کے جلد خراب ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے ا س لیے اس سے تیار کی گئی خوراک زیادہ عرصے تک استعمال ہو سکتی ہے۔
کچھ ریسٹورنٹس جزوی ہائیڈروجن پر مشتمل ویجیٹیبل آئل کو اپنے ڈیپ فرائیرز میں استعمال کرتے ہیں کیوں کہ اسے اتنے تواتر سے نہیں بدلنا پڑتا جتنا کہ تلنے کے لیے استعمال کیے جانے والے دوسرے تیل تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
بناسپتی گھی خوراک کی متعدد مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے جن میں کمرشل طور پر تیار کیے گئے کیک،بسکٹس اور پائیز شامل ہیں۔
صحت عامہ کے ایک ادارے ریزولوو ٹو سیو لائیوز ، کے چیف ایکزیکٹو آفیسر ٹام فریڈن کا کہنا ہے کہ خوراک سے عالمی سطح پر ٹرانس فیٹ کے خاتمے سے2040 تک دل کی بیماریوں سے ہونے والی 17 لاکھ اموات کو روکا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مصنوعی ٹرانس فیٹ یا مصنوعی چربی کی کوئی غذائی اہمیت نہیں ہے یہ تمباکو کی طرح نقصان دہ ہے ۔
عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں جب سے خوراک میں بناسپتی گھی کو 2030 تک ختم کرنے کا ایک عالمی ہدف مقرر کیا ہے، اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے ۔
ادارے کاکہنا ہے کہ اب تک 43 ملک خوراک میں بناسپتی گھی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہترین قابل عمل پالیسیوں پر عمل درآمد کر چکے ہیں اور یوں 2 ارب 80 کروڑ لوگوں کو دل کی بیماریوں سے محفوظ کر چکے ہیں ۔
تاہم فریڈن کہتے ہیں کہ ابھی تک 5 ارب لو گ بناسپتی گھی کے صحت پر تباہ کن اثرات کے خطرے کی زد میں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتیں ڈبلیو ایچ او کی بہترین پریکٹس کی پالیسیوں پر عمل کر کے ان اموات کو روک سکتی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ متعدد ممالک ، خاص طور پر میکسیکو ، نائیجیریا اور سری لنکا عنقریب زندگی بچانے والی ان پالیسیوں کو منظور کرنے والے ہیں ۔
فریڈن نے کہا کہ ایک ملک میں پالیسی کی جیت دوسرے ملکوں کو کارروائی کرنے پر مائل کرسکتی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ اس سلسلے میں پیش قدمی کرنے والے بھارت ، بنگلہ دیش اور فلپائن جیسے ملک پورے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے خطے کے لیے مثال بن جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ نائیجیریا جنوبی افریقہ کے ساتھ ساتھ جس نے پہلے ہی بناسپتی گھی پر پابندی لگا دی ہے اس حوالے سے افریقہ کے لیے ایک لیڈر بن جائے گا ۔
فریڈن نے کہا کہ تجربے سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ صنعت بناسپتی گھی کی جگہ دوسرے صحت مند متبادلات اپنا سکتی ہے ،اختراع کر سکتی ہے اور تبدیل کر سکتی ہے ۔ ایسی صرف چند ایک ہی بڑی کمپنیاں ہیں جو ایک زہریلا کیمیکل بناتی رہتی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمپنیاں بھی جب دیکھیں گی کہ بناسپتی گھی کے دن گنے جا چکے ہیں تو وہ بھی انہیں بنانا ترک کر دیں گی ۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بناسپتی گھی کے خاتمے کی بیشتر پالیسیاں زیادہ آمدنی والے ممالک میں نافذ کی گئی ہیں، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں، اور یہ کہ درمیانی آمدنی والے ملکوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کی تقلید کر رہی ہے۔ تاہم، ابھی تک، کسی بھی کم آمدنی والے ملک نے ایسا نہیں کیا ہے۔
وی او اے نیوز