روس اپریل کے اوائل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک غیر رسمی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے لیے اس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرینی بچوں کو روس لے جائے جانےکی "حقیقی صورتحال" کے بارے میں ہوگا۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بچوں کے اغوا سے متعلق جنگی جرائم کے لئےروسی صدر ولادیمیر کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ گرفتاری کے بعد اجاگر ہوہے۔اور یہ اس میں تازہ ترین پیش رفت ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ روس نے آئی سی سی کے جمعہ کے اعلان سے بہت پہلے کونسل کے اجلاس کی منصوبہ بندی کی تھی۔
روس کو اپریل میں کونسل کی باری باری دی جانے والی صدارت ملے گی۔
ولادی میر پوٹن کے وارنٹ گرفتاری کے بعد بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روسی صدر پر جنگی جرائم میں لوگوں، خاص طور پر بچوں کی غیر قانونی ملک بدری اور یوکرین کے مقبوضہ علاقوں سے روسی فیڈریشن میں ان کی غیر قانونی منتقلی کا الزام عائد کیا تھا۔
آئی سی سی نے بچوں کے حقوق کے لیے روسی کمشنر ماریا الیکسیوینا لیووا بیلووا کے خلاف بھی اسی الزام کے تحت ایک الگ وارنٹ جاری کیاہے۔
ماسکو کی جانب سے جمعہ کے اس اقدام کو مسترد کر تے ہوئے، کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ان الزامات کو ’’اشتعال انگیز‘‘قرار دیاتھا۔
روس نے، جو گزشتہ سال فروری میں اپنے حملے کے بعد سے شہریوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کو مسترد کرتا ہے اور بارہا یہ تردید کر چکا ہے کہ اس کی افواج نے مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ روس نے یوکرینی شہریوں کو غیر قانونی طور پر منتقل کرنے کے ماضی کے الزامات کو بھی مسترد کیا ہے۔
اس معاملے پر یوکرینی حکام کی طرف سے فراہم کردہ چند اہم حقائق اور اعداد و شمار کے بارے میں یوکرین کی بچوں کے حقوق اور بحالی کی صدارتی مشیر کمشنر ڈاریا ہیراسیمچک نے جمعہ کو رائٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں پانچ اہم طریقوں کی وضاحت کی جو ان کے مطابق روس نے یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طور پر منتقل کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے خاندانوں کو اپنے بچے ، بچوں کے لیے قائم کردہ خصوصی روسی کیمپوں میں تعطیلات گزازرنے کے لیے کیمپ لے جانے کی پیشکش اور ایک طے شدہ وقت کے دوران انہیں واپس نہ کرنا-
یوکرینی بچوں کو مقبوضہ علاقوں میں نگہداشت کے اداروں سے دور لے جانا -
فلٹریشن چیک پوائنٹس پر بچوں کو والدین سے الگ کردینا -یعنی وہ جگہیں جہاں روسی قبضے میں آنے والے علاقوں کے یوکرینی شہریوں کو روس میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے پہلے چانچ پرکھ کے بعد کارروائی کی جاتی ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں نافذ العمل قوانین کے ذریعے والدین کے حقوق چھین لینا۔
بچوں کو ایسے معاملات میں ان جگہوں سےلے جانا جہاں وہ جنگ میں اپنے والدین کے مارے جانے کے بعد دوسرے بالغ افراد کے ساتھ مقیم تھے۔
یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل اینڈری کوسٹن نے 17 مارچ کو اپنے فیس بک پیج پر کہا کہ استغاثہ روس کے زیر قبضہ علاقوں ڈونیٹسک، لوہانسک، کھرکیو اور کھیرسن کے علاقوں سے 16,000 سے زیادہ بچوں کو ملک بدر کرنے کے واقعات کی تحقیقات کر رہا ہے ، لیکن ا’’صل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں‘‘۔
انہوں نےٹوئٹر پر کہا ’’جب ہم روسی فیڈریشن کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہمارے پاس رجسٹر شدہ یوکرینی ک یتیم بچوں کی تعداد 2161 ہیں جنہیں روس نے غیر قانونی طور پر منتقل کیا ہے‘‘۔
عہدہ داروں نے بتایا کہ یوکرین اب تک 308 بچوں کی واپسی میں کامیاب ہو چکا ہے۔
عارضی طور پرروس کے قبضے میں جانے والے علاقوں کے یوکرین کے ساتھ دوبارہ انضمام کی وزیر ارینا ویریشچک نے ہفتے کے روز روسی حکام کو ایک عوامی اپیل جاری کی جس میں یوکرین کے ایسے تمام یتیم اور ان سارے یوکرینی بچوں کی فہرستیں طلب کی گئی تھیں جو اس وقت مقبوضہ یوکرین کے علاقوں میں ہیں یا غیر قانونی طور پر منتقل کیے گئے اور ان کے والدین کے حقوق چھین لیے گئے تھے۔
فروری میں ییل سکول آف پبلک ہیلتھ کی ہیومینٹیرین ریسرچ لیب کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس نے کم از کم 6 ہزار اور ممکنہ طور پراس سے کہیں زیادہ یوکرینی بچوں کو ، روس کے زیر قبضہ علاقے کریمیا اور روس میں موجود دیگر مقامات پر رکھا ہےجس کا بنیادی مقصد بظاہر انہیں ازسر نو سیاسی تعلیم دیناہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ییل یونیورسٹی کے محققین نے کم از کم 43 ایسےکیمپوں اور دیگرتنصیبات کی نشاندہی کی ہے جو ماسکو کے ذریعے چلائے جانے والے’’اس بڑے منظم نیٹ ورک‘‘ کا حصہ ہیں جہاں یوکرینی بچوں کو رکھا گیا ہے۔
(یہ رپورٹ ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز کی فراہم کردہ اطلاعات پر مبنی ہے)