افغانستان کی سیاست کے اہم نام اور حزبِ اسلامی کے رہنما انجینئر گلبدین حکمت یار ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔ حکمت یار ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بیرونی جارحیت، سیاسی، قبائلی اور مذہبی قائدین کے آپس کے اختلافات کے باعث جنگ سے تباہ حال افغانستان کے سیاسی اور مذہبی حلقوں میں انجینئر گلبدین حکمت یار کا ایک اہم مقام ہے۔
حزبِ اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم نہ صرف افغانستان کی اندرونی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اُنہیں پاکستان نواز بھی سمجھا جاتا ہے۔
سن 1949 میں افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے گلبدین حکمت یار 60 اور 70 کی دہائی کے وسط میں کابل کی طلبہ تنظیموں میں ایک متحرک رہنما بن کر اُبھرے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق 1973 میں محمد ظاہر شاہ کے غیر ملکی دورے کے دوران اُن کے چچا زاد بھائی داؤد خان نے پرامن انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوری اصلاحات کا اعلان کیا تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات نے بھی نیا رُخ اختیار کیا۔
تجزیہ کاروں کے بقول پاکستان کی حمایت سے داؤد خان کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تو گلبدین حکمت یار، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما اجمل خٹک بھی سیکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان گئے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اُس وقت کے آئی جی فرنٹیئر کور نصیر اللہ بابر نے افغانستان کے 80 اہم گھرانوں سے رابطہ کیا اور اُنہیں داؤد خان کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کیا۔ اُن میں گلبدین حکمت یار بھی شامل تھے۔
یوں تو افغانستان کی اسلامی تحاریک 20 ویں صدی کی تیسری دہائی تک مصر کی اخوان المسلمین سے متاثر ہو کر سرگرم رہی ہیں۔ تاہم 60 اور 70 کی دہائی میں جماعت اسلامی پاکستان نے بھی سرحد پار افغانستان میں رابطے بڑھانا شروع کیے۔ گلبدین حکمت یار کو بھی جماعت اسلامی کی طرز پر مذہبی، سیاسی جماعت تشکیل دینے کے لیے تیار کیا گیا۔
بعدازاں سردار داؤد خان کی حکومت کی مخالفت کی پاداش میں وہ کافی عرصے تک پاکستان میں بھی مقیم رہے۔
دسمبر 1979 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو گلبدین حکمت یار، قاضی امین وقار اور مولوی یونس خالص نے حزبِ اسلامی افغانستان کی بنیاد رکھی۔ تاہم کچھ ہی عرصے میں حزبِ اسلامی افغانستان تین دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور حکمت یار نے اپنا الگ دھڑا منظم کیا۔
اسّی کی دہائی کے وسط میں جب امریکہ اور اتحادیوں بشمول سعودی عرب کی مالی اور دفاعی امداد کے نتیجے میں روس کے خلاف مزاحمت زوروں پر تھی تو بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس دوران پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا مثبت تشخص اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان آنے والے افغان مہاجرین میں بھی اس تحریک کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور اسے پشتونوں کی نمائندہ جماعت قرار دیا جانے لگا۔
تاہم دوسری طرف ایک اور سیاسی رہنما پروفیسر برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی کو غیر پشتون افغانوں کی حمایت حاصل رہی۔
سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان کے مختلف سیاسی دھڑے آپس میں برسرِ پیکار ہو گئے اور صدر ڈاکٹر محمد نجیب اللہ کی حکومت کے خلاف گلبدین حکمت یار سمیت مختلف اسلامی تحریکوں نے مزاحمت شروع کر دی۔
حکمت یار کی حزبِ اسلامی کو 1992 میں افغانستان کی عبوری حکومت میں بھی شامل کیا گیا۔ تاہم حکمت یار بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت اور شراکت اقتدار کے فارمولے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس سے الگ ہو گئے۔
اپریل 1992 میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کے درمیان اقتدار کے لیے لڑائی شروع ہوئی تو اُس وقت کے پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے پشاور آ کر تمام افغان جہادی رہنماؤں کو گورنر ہاؤس میں جمع کیا اور جنگ بندی پر آمادہ کر کے فریقین کے درمیان معاہدہ کرایا۔
لیکن اُنہوں نے نگران صدر صبغت اللہ مجددی اور بعدازاں برہان الدین ربانی کی بھی سیاسی مخالفت کی اس دوران کابل پر قبضے کے لیے حکمت یار کی حزبِ اسلامی، عبدالرشید دوستم، احمد شاہ مسعود سمیت دیگر دھڑے بھی آپس میں لڑنے لگے اور ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوتا گیا۔
اسی دوران طالبان کی سیاسی تحریک زور پکڑتی گئی اور آخر کار 1996 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔
حکمت یار نوے کی دہائی میں دو دفعہ وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تاہم اُنہیں کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔
ستمبر 1996 کے وسط میں جب طالبان نے سرحدی شہر جلال آباد پر قبضہ کر لیا تو ان کے سامنے کابل پر قبضہ کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا۔ تاہم کابل میں داخل ہونے سے قبل طالبان نے حکمت یار کو چارسیاب سے نکلنے کا کہا جس پر وہ پشاور منتقل ہو گئے۔
لیکن طالبان کے دباؤ کے بعد پاکستانی حکام نے بھی مبینہ طور پر حکمت یار کو کسی اور ملک جانے کا کہا اور یوں وہ نورستان کے راستے شمالی افغانستان منتقل ہو گئے اور اطلاعات کے مطابق اپنے سیاسی حریف احمد شاہ مسعود کے بھی کچھ روز مہمان رہے۔ تاہم بعدازاں وہ دیرال چلے گئے۔
نائن الیون اور مزاحمتی تحریک
امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد جب امریکی اور اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تو حکمت یار نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کرنے کا اعلان کیا۔
حزبِ اسلامی نے اپنے حملوں میں آٹھ فرانسیسی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں امریکہ اور اتحادی افواج پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی موجودگی کے دوران طالبان کے ساتھ حزبِ اسلامی افغانستان کے تعلقات زیادہ کشیدہ نہیں تھے۔ تاہم ان تعلقات کی کبھی بھی دونوں جانب سے تصدیق نہیں کی گئی۔ تاہم 2014 کے بعد جب افغانستان میں حامد کرزئی کی جگہ ڈاکٹر اشرف غنی برسرِ اقتدار آئے تو حزبِ اسلامی نے مسلح مزاحمت کو غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دیا۔
حکمت یار نے ستمبر 2018 کے صدارتی انتخابات میں ازخود حصہ لیا تھا مگر ان کو سات ہزار کے لگ بھگ ووٹ ملے۔ ستمبر 2019 سے قبل اُنہوں نے اپنے ایک بیٹے کو اکتوبر 2018 کے انتخابات میں کھڑا کیا مگر اُنہیں بھی چند سو ووٹ ملے تھے۔
کسی وقت میں حزبِ اسلامی افغانستان کو افغانستان میں ایک مؤثر اور منظم سیاسی، مذہبی اور مزاحمتی تحریک کی حیثیت حاصل تھی مگر اب یہ جماعت چار سے زیادہ حصوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ ماضی میں اس کے اہم عہدیدار اور کمانڈر اب مختلف سیاسی گروہوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
تنازعات اختلافات اور تضادات
ستر کی دہائی سے لے کر اب تک حکمت یار کی سیاسی اور مزاحمتی تحریک مختلف حوالوں سے تنازعات اور تضادات کا شکار رہی ہے۔
افغانستان میں مبینہ طور پر جارحیت کرنے والی روسی افواج کے خلاف امریکہ اور اتحادیوں کی حمایت سے مسلح مزاحمت میں کردار ادا کرنے کے باوجود وہ بعد میں امریکہ کے سخت ناقدین میں شمار رہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول سوویت یونین کے ساتھ جہاد میں شریک دیگر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ حکمت یار کی حزبِ اسلامی کے کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے اثر و رُسوخ کے بعد ایران نے حزبِ اسلامی کے کئی رہنماؤں کو پناہ دی۔ لیکن وہ ایران پر بھی افغانستان میں شیعہ گروہوں کی مدد کا الزام لگاتے رہے۔
عرب جنگجوؤں کے ساتھ تعلقات
افغانستان میں حالات بگڑنے اور روسی افواج کے داخل ہونے کے فوراً بعد جب مصر، یمن، سعودی عرب اور دیگر ریاستوں سے سیکڑوں کی تعداد میں جنگجو پشاور پہنچے۔ تو ان کے ساتھ انجینئر حکمت یار اور ان کی پارٹی میں شامل افراد کے اچھے تعلقات رہے۔
حکمت یار کے اُسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، عبداللہ عظام سمیت دیگر عرب جنگجوؤں کے ساتھ بھی روابط رہے۔