|
پاکستان میں 19 رُکنی وفاقی کابینہ نے حلف اُٹھا لیا ہے جس میں نئے چہروں کے ساتھ ساتھ غیر سیاسی افراد یعنی ٹیکنوکریٹس کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ کابینہ میں صحافی محسن نقوی اور بیورو کریٹ احد چیمہ بھی شامل ہیں۔
ان دو افراد کے علاوہ بینکار محمد اورنگزیب خان بھی حلف اُٹھانے والوں میں شامل ہیں جنہیں وزارتِ خزانہ کا قلم دان ملنے کا امکان ہے۔ تاہم احد چیمہ اور محسن نقوی کی کابینہ میں شمولیت کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے احد خان چیمہ نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈویژنل پبلک اسکول لاہور سے حاصل کی جس کے بعد اُنہوں نے جامعہ پنجاب سے ابلاغیات اور اکنامکس میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔
جامعہ پنجاب ہی سے اُنہوں نے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں اُنہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے سوشل پالیسی اور پلاننگ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
احد خان چیمہ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا۔ وہ بطور صحافی انگریزی روزنامہ 'دی نیوز' پاکستان اور لندن میں بی بی سی اُردو سروس سے منسلک رہے۔
احد خان چیمہ نے پاکستان کا سب سے بڑا امتخان فیڈرل پبلک سروس پاس کیا۔ اُن کا تعلق 28 ویں کامن سے ہے جس کے بعد وہ بطور اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے اور 2001 سے 2018 تک مختلف اہم سرکاری عہدوں پر کام کیا۔
اِسی طرح محسن نقوی نے ابتدائی تعلیم لاہور کے کریسنٹ ماڈل ہائی اسکول سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئے۔ محسن نقوی نے امریکہ کی یونیورسٹی آف اوہائیو سے صحافت میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی جس کے بعد اُنہوں نے نشریاتی ادارے 'سی این این' میں بطور انٹرن کام شروع کیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد محسن نقوی پاکستان لوٹے اور سی این این کے ساتھ ہی کام کرنے لگے۔ شروع میں وہ بطور پروڈیوسر سی این این کے ساتھ وابستہ رہے جس کے بعد انہیں ریجنل ہیڈ تعینات کیا گیا۔
محسن نقوی نے نائن الیون کے بعد سی این این کے لیے فیلڈ رپورٹنگ کی۔ وہ 2009 تک سی این این کے ساتھ ہی منسلک رہے۔
ٹی وی چینل کا آغاز
محسن نقوی نے 2009 میں لاہور کے ’سٹی نیوز نیٹ ورک‘ کے تحت ’سٹی 42‘ کے نام سے ٹی وی چینل کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد اُنہوں نے فیصل آباد سے سٹی 41، کراچی سے سٹی 21 اور لندن سے چینل 44 شروع کیا۔
احد خان چیمہ اور سید محسن نقوی دونوں ہی کے نام نگراں وزیر اعلٰی پنجاب کے لیے اُس وقت کی حکومت نے تجویز کیے تھے۔ تاہم قرعہ محسن نقوی کے نام نکلا۔
اِسی طرح احد خان چیمہ 2022 سے 2024 تک پہلے شہباز شریف کے اور بعد ازاں نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے مشیر رہے۔
'یہ وزیرِ اعظم کی مرضی ہے'
مبصرین کے مطابق پاکستان میں کسی بھی غیر منتخب شخص کا خاص عہدوں پر فائز ہونا اس کی قابلیت کے ساتھ ساتھ اُس کے طاقت ور حلقوں سے روابط کی بنیاد پر مبنی ہوتا ہے۔
پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی اقدار پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے صدر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کی کابینہ کی تشکیل اُس کی مرضی سے ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ پارلیمانی نظام میں کابینہ کا حصہ ہونے کے لیے کسی بھی فرد کے لیے اسمبلی یا سینیٹر کی رکنیت ہونی چاہیے۔ لیکن حالیہ عرصے میں غیر منتخب افراد یا ٹیکنو کریٹس بھی کابینہ میں بطور مشیر یا معاونِ خصوصی شامل ہو رہے ہیں۔
سینئر صحافی کالم نویس اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ غیر سیاسی اور غیر منتخب لوگوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر وفاقی کابینہ کا حصہ بنایا جاتا ہے جس میں پسند نہ پسند کے ساتھ ساتھ اُس شخص کی قابلیت اور کسی خاص شعبہ میں مہارت کو دیکھا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چوں کہ 'ہائبرڈ نظامِ حکومت ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کا بھی کردار ہے۔ لہذٰا کابینہ کے لیے ناموں پر غور و فکر ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ محمد اورنگزیب بینکنگ کے شعبے سے آئے ہیں جو ملک کے خزانے اور معاشی صورتِ حال کو دیکھیں گے۔ اسی طرح محسن نقوی نے بطور نگراں وزیرِ اعلٰی پنجاب اپنی صلاحیتیں دکھائی ہیں جس سے اب وفاقی حکومت بھی فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔
'محسن نقوی پر طاقت ور حلقے بھی اعتماد کرتے ہیں'
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ایک شخص وزیرِ اعظم کو پسند ہوتا ہے لیکن وہی شخص اتحادیوں کو یا بعض اوقات اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں ہوتا۔ لہذٰا سب کا کسی ایک شخص پر متفق ہونا اس شخص کی بہت بڑی قابلیت سمجھی جاتی ہے۔
اُن کے بقول محسن نقوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی قابلِ قبول ہیں۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ محسن نقوی نے بطور نگراں وزیراعلٰی پنجاب مشکل حالات میں ایک مضبوط اعصاب کے شخص کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ اُن پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے مخصوص لوگوں پر بہت زیادہ سختی کی لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے نتائج دیے اور ترقیاتی منصوبوں کو بھی تیزی سے مکمل کرایا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نجم سیٹھی اور ڈاکٹر حسن عسکری بھی نگراں وزیرِ اعلٰی رہ چکے ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ نگراں سیٹ اپ میں رہنے والا شخص انتخابات کے بعد بننے والی کابینہ میں بھی شامل ہو جائے۔ لہذٰا ہو سکتا ہے کہ محسن نقوی کی کارکردگی اُن کے کام آئی ہو۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ محسن نقوی کو وزیرِ داخلہ بنائے جانے کا امکان ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کم عمر، محنتی اور متحرک ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی اُن کی بات سنی جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اُن سے بطور وزیر داخلہ اہم کام لینا چاہتی ہے جو شاید کسی ایک گروپ کو ناپسند ہو۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) محسن نقوی کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنما زمان پارک میں ہونے والی پولیس کارروائیوں اور پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا ذمے دار محسن نقوی کو سمجھتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول وفاقی حکومت بھی شاید اسی بنیاد پر محسن نقوی کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ احد چیمہ ماضی میں وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف کے ساتھ پنجاب حکومت میں کام کر چکے ہیں اور مختلف کرپشن مقدمات میں نامزد ہونے کی وجہ سے پابندِ سلاسل بھی رہے۔
اُن کے بقول پنجاب میں میٹرو بس، بجلی کے منصوبوں سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں میں احد چیمہ کا اہم کردار رہا ہے جب کہ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے جیل میں شہباز شریف کے خلاف بیان دینے سے گریز کیا۔
فورم