طالبان رہنما منگل باغ کی رواں ماہ افغانستان میں بم دھماکے میں ہلاکت سے یہ بحث دوبارہ شروع ہو گئی ہے کہ افغانستان میں موجود پاکستان کے شدت پسند گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے؟
پاکستان کے سرحدی ضلعے خیبر میں فعال کالعدم شدت پسند گروہ 'لشکرِ اسلام' کے سربراہ منگل باغ 28 جنوری کو افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلعے نازیان میں سڑک کنارے نصب ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔
ننگرہار کے گورنر ضیا الحق امرخیل نے منگل باغ کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ جب کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ لشکرِ اسلام کے ایک رہنما نے منگل باغ کی موت کی تصدیق کی ہے۔ البتہ ان کے بقول کسی بھی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی ماہرین ایک جانب منگل باغ کی ہلاکت کو پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کے لیے دھچکا اور ان کے خلاف جاری کارروائیوں میں مددگار سمجھ رہے ہیں۔ تو وہیں وہ افغانستان میں پاکستان سے بھاگے ہوئے طالبان رہنماؤں کی حالیہ دو برس میں پراسرار ہلاکتوں میں اضافے پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ہلاکتوں کی لمبی فہرست
افغانستان کے مختلف علاقوں میں منگل باغ سے قبل پاکستان سے تعلق رکھنے والے متعدد طالبان رہنماؤں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جس کی ذمہ داری کسی بھی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
ٹی ٹی پی نے خود اپنی مطبوعات میں حالیہ چند برس میں اپنے درجنوں رہنماؤں اور حامیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
شدت پسند تنظیم کے مرکزی امیر مفتی نور ولی نے گزشتہ برس شائع کردہ ’انقلابِ محسود‘ نامی کتابچے میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کی حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے ختم کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔
ٹی ٹی پی رہنما خود بھی پریشان
پاکستانی طالبان کے امور سے باخبر ایک مذہبی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں پہلے ٹی ٹی پی کے رہنما ڈرون حملوں میں مارے جاتے تھے مگر گزشتہ دو برس سے پراسرار طریقے سے ان کی ہلاکتیں رونما ہو رہی ہیں جس سے ٹی ٹی پی رہنما خود بھی پریشان ہے۔
حال ہی میں ٹی ٹی پی کے مالیاتی امور کے سربراہ نور گل المعروف مسلم یار اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ 15 جنوری کو افغان صوبے کنڑ کے ضلع سرکانی میں سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
سیکیورٹی اداروں کے مطابق نور گل مارچ 2014 میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور نومبر 2016 میں بلوچستان میں شاہ نورانی کے مزار پر خودکش حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے دونوں افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی۔
گزشتہ برس دسمبر میں شمالی وزیرستان کے ایک اہم طالبان رہنما احسان اللہ عرف خطاب بھی افغان صوبے پکتیکا کے ضلع اورگن میں ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
احسان اللہ حال ہی میں ٹی ٹی پی شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کمانڈر علیم خان کے ڈپٹی کمانڈر بنائے گئے تھے۔
کراچی میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں انتہائی مطلوب ٹی ٹی پی کمانڈر عزیز اللہ عرف شامزئی بھی جولائی 2020 میں افغان صوبے ننگرہار کے علاقے مہند درہ میں ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ جون میں شہریار محسود کے کمانڈر قاری عثمان عرف منصور محسود کنڑ میں مارے گئے تھے۔
شہریار محسود ٹی ٹی پی کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے دھڑے کے سربراہ تھے۔ جو خود گزشتہ برس فروری میں افغانستان کے صوبے کنڑ کے علاقے دڑانگ میں بارودی سرنگ کانشانہ بنے تھے۔ ان کی جگہ مولانا والی عرف عمری کو دھڑے کا سربراہ نامزد کیا گیا۔
رواں ماہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی رہبر شوری کے رکن اور سابق نائب شیخ خالد حقانی اور اہم کمانڈر قاری سیف یونس افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مارے گئے تھے۔
ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے شیخ خالد حقانی کو ٹی ٹی پی کے حلقے ’نظریاتی استاد‘ مانتے تھے۔
ہلاکتوں کے اسباب
ٹی ٹی پی کے رہنماؤں پر حملوں میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی ہے کہ جب افغان طالبان اور امریکہ کے مابین فروری 2020 کے امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع چکے ہیں جس میں پاکستان کی حمایت بھی شامل ہے۔
سنگاپور میں قائم ‘انٹرنیشنل سینٹر فار پولیٹیکل وائلنس اینڈ ٹیررازم’ سے وابستہ محقق عبد الباسط نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں پناہ لینے والے پاکستان مخالف طالبان کمانڈروں کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے یوں لگ رہا ہے کہ اسلام آباد، کابل اور واشنگٹن کی انتظامیہ کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہے۔
عبد الباسط کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے کہنے پر افغان امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے بدلے افغانستان کے سرحدی صوبوں میں پناہ لینے والے پاکستانی طالبان کمانڈروں کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ کیا گیا ہو۔
خیال رہے کہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی کے حملوں کے بعد اسلام آباد نے متعدد مرتبہ کابل سے افغانستان کے سرحدی صوبوں میں ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے دفترِ خارجہ نے باضابطہ طور پر افغان حکومت کو سرحد کے ساتھ ساتھ واقعہ ٹی ٹی پی کے کیمپوں کے مقامات سے آگاہ کر چکی ہے اور درخواست کی ہے کہ افغان حکومت ان علاقوں میں اپنی افواج تعینات کرے۔
افغان صوبے کنڑ کے شہر اسد آباد میں مقیم ایک قبائلی رہنما فضل محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی طالبان رہنماؤں کی ہلاکتوں کے لیے کسی مقامی مسلح گروہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
بقول ان کے افغانستان کے سرحدی صوبوں میں مختلف نوعیت کے درجنوں مسلح گروہ فعال ہے۔ جن کے لیے پیسے لے کر کسی کو بھی فائرنگ یا بم دھماکے سے ہلاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
افغان طالبان اور داعش
شدت پسند تنظیم ‘داعش’ نے جب پاکستان اور افغانستان کے لیے خراسان کے نام سے خطے کے لیے تنظیم تشکیل دی۔ تو افغانستان کے سرحدی صوبے خصوصاً ننگر ہار اور کنڑ اس شدت پسند تنظیم کے مضبوط مراکز بن گئے جس کی اہم وجہ ٹی ٹی پی کے متعدد رہنماؤں کی داعش میں شمولیت تھی۔
داعش کے قریب رہنے والے پاکستان کے طالبان کمانڈروں میں منگل باغ بھی شامل تھے۔ مگر کچھ عرصے بعد انہوں نے یہ تعلق ختم کر دیا تھا۔
فضل محمد کے مطابق افغان طالبان اور افغان حکومت دونوں نے سرحدی علاقوں میں داعش کے خلاف الگ الگ شدید کارروائیاں کیں۔ ان کے بقول یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے طالبان رہنماؤں کی ہلاکتیں داعش سے تعلق کی بنیاد پر ہوئی ہوں۔
محقق عبد الباسط کا کہنا ہے کہ افغان طالبان شیخ حقانی اور منگل باغ جیسے ٹی ٹی پی رہنماؤں پر حملے نہیں کر سکتی۔
افغان طالبان نے افغانستان میں پناہ لینے والے تمام بیرونی شدت پسندوں، بشمول ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے رہنماؤں کو افغانستان میں اپنی سرگرمیاں نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
البتہ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ برس مئی میں دوحہ میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان کے ان علاقوں میں فعال ہے جو افغان حکومت کے زیرِ اثر ہیں۔
پاکستانی طالبان رہنما افغانستان کیوں منتقل ہوئے؟
عالمی دباؤ کے تحت پاکستان نے جون 2014 میں مختلف مقامی اور بین الاقوامی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی شروع کی جس کو آپریشن ‘ضربِ عضب’ کا نام دیا گیا۔
اس آپریشن کے سبب شمالی وزیرستان سے ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے رہنما اپنے خاندانوں سمیت افغانستان کے سرحدی صوبوں میں منتقل ہو گئے تھے۔
پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آپریشن 'ضربِ عضب' میں شدت پسندوں کے خلاف فوج نے زمینی قوت کے ساتھ ساتھ فضائی حملے بھی کیے۔ ان کے بقول یہی وجہ تھی کہ شدت پسند تنظیمیں فوج کی مؤثر کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں جس کے نتیجے میں سیکڑوں جنگجو سرحد پار کر کے افغانستان چلے گئے تھے۔
جنوبی اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان گروہ افغانستان کے صوبہ پکتیکا، جب کہ پاکستان کے علاقوں سوات، باجوڑ، مہمند، خیبر اور دیگر قریبی علاقوں میں سرگرم ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغان صوبوں کنڑ اور ننگر ہار منتقل ہوئے تھے۔
سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق صرف ضلع سوات سے ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے مفرور افراد کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ جو 2007 میں وادی میں آپریشن شروع ہونے کے بعد خاندانوں کے ہمراہ پہلے شمالی وزیرستان اور پھر آپریشن 'ضربِ غضب' کے بعد کنڑ منتقل ہوئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں اور علاقے میں حکومت کی جانب سے قائم امن کمیٹیوں نے ان طالبان کمانڈروں کے گھروں کو بھی مسمار کر دیا ہے۔
ان خاندانوں میں ضلع سوات کے علاقہ شور سے تعلق رکھنے والے رہائشی رشید خان کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ وہ گزشتہ برس مئی میں ایک تعزیت کے لیے کنڑ کے علاقے سوکئی گئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنڑ میں آباد شدت پسندوں کے ان خاندانوں کو مقامی افراد مہاجرین کہہ رہے ہیں، اور پختون روایات کے مطابق انہیں رہنے اور کاروبار کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خاندانوں کے بچوں کے لیے متعدد مدارس بھی کھولے گئے ہیں۔
ہلاکتوں کے پاکستان کی سیکیورٹی پراثرات
سیکیورٹی ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد پاکستان میں بھی سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کی واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
پشاور میں تعینات اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ آپریشن 'ضربِ عضب' کے بعد ٹی ٹی پی کا پاکستان میں موجود تنظیمی ڈھانچہ تقریباً ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ ان کے بقول افغانستان میں رہنماؤں کی ہلاکتوں سے ان کی دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت میں بھی بہت حد تک کمی آئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی افغانستان میں پاکستان مخالف طالبان رہنماؤں کو مار رہا ہے۔ اس کے جو بھی اسباب ہوں، پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال پر ان کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔