پاکستان میں گزشتہ ایک برس سے جاری سیاسی، معاشی اور آئینی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں مہنگائی کے طوفان نے شہریوں کی قوتِ خرید کو متاثر کیا ہے تو وہیں ملک میں عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی کے باعث لوگوں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری رہتی ہے کہ پاکستان کے ان حالات کا ذمے دار آخر ہے کون؟ بعض مبصرین اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں جب کہ بعض سیاسی تجزیہ کار سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کی سیاست میں مداخلت نے جہاں اداروں کو تقسیم کیا وہیں اس کے اثرات اب معاشرے میں تقسیم کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلاف سمجھنا بھی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ لہذٰا اس صورتِ حال سے نکلنے کا واحد راستہ قومی اتفاقِ رائے ہی ہے۔
کیا واقعی فوج موجودہ حالات کی ذمے دار ہے؟
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اس وقت خراب ہوا جب سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ جاتے جاتے یہ کہہ گئے کہ فوج اب نیوٹرل ہے۔ یہ ایک بڑا بیان تھا کیوں کہ اس سے پہلے فوج سیاسی فریقوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتی رہتی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے اس فیصلے سے ماحول میں کڑواہٹ پیدا ہوئی۔
نعیم خالد لودھی کے بقول اس صورتِ حال کا اصل ذمے دار وہ ہے جس نے سیاست میں فوج کی مداخلت کو تسلیم کیا۔
اُن کے بقول اس وقت بظاہر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے اور جیسے ہی اس نے اپنا وزن کسی فریق کے پلڑے میں ڈالا ملک میں حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب سابق آرمی جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو اس صورتِ حال کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ ان کا ادارہ 70 سال سے سیاست میں مداخلت کرتا رہا ہے لیکن اب وہ ایسا نہیں کریں گے، لیکن جنرل باجوہ نے جو کچھ کیا وہ اس تمام صورتِ حال کے ذمے دار ہیں۔
'پہلے ایک 'ایکٹر' کو لائے اور پھر پرانے نظام کی طرف چلے گئے'
دفاعی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بحران کا ذمے دار سابق فوجی قیادت کو کہا جاسکتا ہے جنہوں نے سیاسی نظام میں اپنی خواہش پر ایک 'ایکٹر 'لانے کی کوشش کی۔ بعدازاں اس سے مایوس ہونے کے بعد پھر پرانے نظام کی طرف واپس چلے گئے۔
اُن کے بقول ایک ادارہ جس کی ذمے داری ملک کی حفاظت ہے وہ حفاظت سے ہٹ کر کوئی اور کام کرنے لگتا ہےتو ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔
عمران خان کا انتخاب اور ان کی حکومت کا کردار
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان کے انتخاب کے وقت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق نواز شریف کو سین سے ہٹایا گیا اور انہیں اقتدار میں لایا گیا۔
اُن کے بقول ساڑھے تین سال کے تجربے کے بعد جب انہوں نے عمران خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو عدم اعتماد بھی فوج کے گرین سگنل کے بعد ہی آئی۔ عام طور پر سیاست دان ایسے معاملات کو برداشت کرتے ہیں لیکن عمران خان نے بھرپور مزاحمت کی جو اب تک جاری ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اُنہیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت ان تمام مسائل کا نکتۂ آغاز ہے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ "بنیادی غلطی تو 2018 کے انتخابات میں ہوئی ان کے بقول ایک سے بڑھ کر ایک غلط کام اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہوا۔سفارتی محاذ میں غلط کام جو عمران کے کھاتے میں لکھے جاتے ہیں وہ بھی درحقیقت انہی کی غلطیاں تھے۔"
خیال رہے کہ افواجِ پاکستان اپنے اُوپر عائد کیے جانے والے اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ فوج کا مؤقف رہا ہے کہ اُنہیں سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے اور سیاست دان سیاسی مسائل خود حل کریں۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک عرصے تک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ پاکستان کی ماضی کی سیاسی لیڈرشپ بہت غلط تھی اور ہمیں نئی لیڈرشپ چاہیے۔
اُن کے مطابق اس بیانیے کو ماننے والے اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی موجود ہیں اور عوام نے بھی اس بیانیے کی پذیرائی کی تھی۔ اس وجہ سے جب پرانی غلطی کو درست کرنے کے لیے دوبارہ جو غلطی کی گئی اس کے نتائج اب سب کے سامنے آگئے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ہم ہر روز تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ اس بحران کا جلد از جلد ختم ہونا ضروری ہے۔
عدلیہ کا کردار
نعیم خالد لودھی نے کہا کہ جب تک عدلیہ بظاہر منقسم نظر نہیں آتی تھی اس وقت تک تو ٹھیک تھا لیکن اب فیصلوں کو بعض حلقوں کی طرف سے متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول ایک طرف تین رکنی بینچ کا فیصلہ تو آیا ہے لیکن اس روز چھ رکنی بینچ کا فیصلہ آنے سے جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلہ کو غیر مؤثر قرار دےدیا گیا ہے۔
عائشہ صدیقہ کا ماننا ہے کہ فوج اس بحران کا حصہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ادارہ جاتی بحران ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت بٹی ہوئی نظر آرہی ہے جب کہ حکومت الیکشن کرانے پر راضی نہیں ہے۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ عدلیہ کو بھی اپنا آپ منوانے میں مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ اگر چیف جسٹس الیکشن کیس میں فل کورٹ بنا دیتے تو ان کے فیصلوں کو بہت زیادہ قبولیت ملتی لیکن ایک متنازع بینچ بنانے سے معاملات مزید خراب ہوئے ہیں۔
کیا سیاست دان مل بیٹھیں گے؟
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت پاکستان مسلم لیگ ( ن) ن ایک اچھا بیانیہ لے کر چل رہی تھی اور مقبول جماعت تھی ۔ اسی وجہ سے نواز شریف کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو عوام میں قبولیت اختیار کر رہا تھا اور عمران خان کی مقبولیت بہت نیچے جا رہی تھی۔
اُن کے بقول اس وقت یہ بات کھل کر سامنے آ رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کے ساتھ برا سلوک کرتی ہے۔ لیکن جیسے ہی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو یہ بیانیہ عمران خان نے حاصل کر لیا اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پی ایم ایل( ن ) نے یہ غلطی کی کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر انہوں نے حکومت قبول کی۔ اس وقت نواز شریف تیار نہیں تھے لیکن شہبا ز شریف نے اسے قبول کیا جو ان کی ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔
عمران خان کے کردار کے حوالے سے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت صرف الیکشن کی حد تک بات کرنے کو تیار ہیں جس میں ان کی ٹیم شریک ہو گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ بات نیم دلی سے کر رہے ہیں کیوں کہ ان کی ٹیم کے پاس مکمل اختیار نہیں ہوتا۔ پارٹی سربراہوں کے شامل ہوئے بغیر سیاسی جماعتوں کی بات چیت نہیں ہوسکتی۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز ایسا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں جو فیصلہ صاف و شفاف ہو اور جسے تمام لوگ قبول کرلیں۔
اُنہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس وقت معاشرہ اس قدر تقسیم ہوچکا ہے کہ پی ٹی آئی والے حکومت کا کوئی فیصلہ قبول کرنے کو تیار نہیں، وہ انتخابات کے التوا پر کسی صورت راضی نہیں ہیں۔
نعیم لودھی نے کہا کہ ایک عرصہ سے سیاست دانوں کے درمیان جاری محاز آرائی سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ "ہمارے سیاست دان مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ سیاست میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاست دان مل کر تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ لیکن جو شخص یہ کہے کہ میں بات ہی نہیں کرتا اس کا کیا کریں۔ عمران خان صرف انتخابات پر بات کرنے کو تیار ہیں اور اب حکومت کے اتحادی بھی بات کرنے سے انکاری ہیں۔