پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن سکس اپنے اختتام کے قریب ہے۔ گزشتہ سیزن کی رنرز اپ لاہور قلندرز اور پی ایس ایل فور کی فاتح کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایونٹ سے باہر ہو چکی ہے۔
ایونٹ کا ناک آؤٹ مرحلہ پیر 21 جون سے شروع ہو گا، پہلے دن ایک کوالی فائر اور ایک ایلی منیٹر کھیلا جائے گا جب کہ 22 جون کو دوسرا اور آخری ایلی منیٹر ہو گا جس کے بعد ایونٹ کا فائنل 24 جون کو کھیلا جائے گا۔
پاکستان سپر لیگ سکس کے باقی میچز کا ابوظہبی میں آغاز اگرچہ دیر سے ہوا لیکن درست وقت پر ہوا۔ نہ صرف بغیر کسی مشکل کے تمام ٹیموں نے پہلے راؤنڈ کے دس دس میچز کھیلے بلکہ کوئی کھلاڑی بظاہر انجری کا شکار بھی نہیں ہوا۔
البتہ ایونٹ کی چھ ٹیموں میں سے دو ٹیمیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور لاہور قلندرز کا سفر پہلے مرحلے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
پوانٹس ٹیبل کا احوال، کون سب سے آگے
لیگ کے پہلے راؤنڈ کے اختتام پر تمام ٹیموں نے دس دس میچز کھیلے، 8 میچز میں کامیابی نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو 16 پوائنٹس دلوا دیے، اور اس وقت وہ پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست ہے۔
دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر موجود باقی ٹیموں نے دس دس پوائنٹس حاصل کیے، لیکن بہتر نیٹ رن ریٹ کی وجہ سے ملتان سلطانز، پشاور زلمی اور دفاعی چیمپئن کراچی کنگز کی ٹیمیں ہی ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ بنا سکیں۔
پانچویں سیزن کی رنرز اپ لاہور قلندرز کی ٹیم دس پوائنٹس ہونے کے باجود خراب رن ریٹ کی وجہ سے ایونٹ کے دوسرے راؤنڈ میں جگہ نہ بنا سکی۔
سرفراز احمد کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جو دس میں سے صرف دو میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی، پہلے ہی دوسرے مرحلے کی دوڑ سے باہر ہوچکی تھی۔
ناک آؤٹ مرحلہ، کون سی ٹیم کم مد مقابل ہو گی
پی ایس ایل سکس کا فاتح کون ہو گا اس کا فیصلہ ہونے کے لیے ابھی مزید چار میچز کھیلے جانا باقی ہیں۔
دوسرے مرحلے میں پہلا میچ 21 جون کو پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ پر موجود اسلام آباد یونائیٹڈ اور دوسرے نمبر پر موجود ملتان سلطانز کے درمیان کھیلا جائے گا۔
اس کوالی فائر میچ میں فتح حاصل کرنے والی ٹیم کو فائنل کا ٹکٹ مل جائے گا جبکہ شکست کھانے والی ٹیم کو فائنل تک رسائی کے لیے ایک اور موقع ملے گا۔
پیر کو ہی دوسرا میچ 'ایلی منیٹر ون' کھیلا جائے گا جس میں پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر پر موجود پشاور زلمی اور چوتھے نمبر پر موجود کراچی کنگز کی ٹیمیں مدِمقابل ہوں گی۔ میچ میں جو ٹیم کامیاب ہوئی وہ 22 جون کو 'ایلی منیٹر ٹو' میں کوالی فائر میچ کی ہارنے والی ٹیم سے مقابلہ کرے گی۔
بعد ازاں ایونٹ کا فائنل 24 جون کو کوالی فائر ون اور ایلی منیٹر ٹو کی فاتح ٹیم کے درمیان کھیلا جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2016 اور 2018 میں ایونٹ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ ایک مرتبہ پھر فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گی یا پھر 2017 کی فاتح پشاور زلمی کا جادو پھر سے چلے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دفاعی چیمپئن کراچی کنگز نے صرف ایک مرتبہ ہی ایونٹ کا فائنل کھیلا ہے جبکہ سیزن فور میں پی ایس ایل کا حصہ بننے والی ملتان سلطانز کی ٹیم آج تک فائنل میں جگہ نہیں بنا سکی ہے۔
ایونٹ کے کامیاب کھلاڑیوں میں بابر اعظم، شاہنواز دھانی سرِِفہرست
ایونٹ کے کامیاب بلے بازوں میں سب سے آگے کراچی کنگز کے بابر اعظم ہیں جنہوں نے دس میچز میں 71.57 کی اوسط سے 501 رنز بنائے ہیں۔ ان کی اس کارکردگی کی وجہ ان کی چھ نصف سینچریاں ہیں جو اس وقت ایونٹ میں سب سے زیادہ نصف سینچریاں ہیں۔
بلے بازوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ملتان سلطانز کے محمد رضوان ہیں جنہوں نے 52.22 کی اوسط سے 470 رنز اسکور کیے ہیں۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سرفراز احمد 321 اور کراچی کنگز کے شرجیل خان 312 رنز کے ساتھ بدستور تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں، ملتان سلطانز کے صہیب مقصود 304 رنز کے ساتھ ٹاپ فائیو بلے بازوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بالرز کی کارکردگی کو دیکھیں تو ملتان سلطانز کے شاہنواز دھانی اب تک پی ایس ایل سکس میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑی ہیں۔
انہوں نے نو میچز میں 13.65 کی اوسط سے 20 وکٹیں حاصل کی ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر 16 وکٹوں کے ساتھ لاہور قلندرز کے شاہین شاہ آفریدی ہیں۔ البتہ اب ان کی ٹیم ایونٹ کا حصہ نہیں ہے۔
ویسے تو پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض نے 9 میچز میں 14 وکٹیں حاصل کیں ہیں، لیکن انہیں اس ایونٹ کا ٹاپ وکٹ ٹیکر بننے کے لیے خاص کارکردگی دکھانا پڑے گی۔
دوسری جانب اسلام آباد یونائیٹڈ کے عثمان خواجہ اس ایونٹ میں سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیل کر سرفہرست ہیں، انہوں نے پشاور زلمی کے خلاف 56 گیندوں پر ناقابل شکست 105 رنز اسکور کیے تھے۔
کراچی کنگز کے شرجیل خان نے بھی 59 گیندوں پر اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف سینچری بنائی تھی۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور بلے باز پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن میں 100 کا ہندسہ عبور نہیں کرسکا۔
پی ایس ایل سکس میں چار یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد ابھی تک صرف پانچ تک ہے۔ جس میں پشاور زلمی کے خلاف پانچ وکٹوں کے ساتھ لاہور قلندرز کے راشد خان سرِفہرست ہیں۔
ملتان سلطانز کے شاہنواز دھانی دو مرتبہ چار وکٹوں کے ساتھ دوسرے کامیاب بالر ہیں جبکہ وہاب ریاض، ارش علی اور محمد وسیم بھی یہ کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔
اس وقت ایونٹ کے سب سے کامیاب وکٹ کیپر ملتان سلطانز کے محمد رضوان ہیں، جنہوں نے دس میچ میں اب تک 15 شکار کیے ہیں، جس میں ایک اسٹمپ بھی شامل ہے۔
لاہور کے بین ڈنک اور پشاور کے کامران اکمل دس دس شکار کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پاکستانی ٹیم میں موجود کئی کھلاڑیوں کی پی ایس ایل سکس میں ناقص کارکردگی
پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کے اختتام کے ساتھ ہی قومی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر روانہ ہوجائے گی جہاں وہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلے گی۔
ٹیم کا اعلان پی ایس ایل سکس کے باقی میچز کے آغاز سے قبل ہی کردیا گیا تھا لیکن لیکن ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل کئے کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں کارکردگی ان کی سلیکشن پر سوال اٹھاتی ہے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اعظم خان نے ٹورنامنٹ کے دس میچز میں صرف 174 رنز اسکور کیے جس میں ان کا سب سے زیادہ اسکور 47 رنز تھا۔ اسی طرح پشاور زلمی کے حیدر علی جنہوں نے دھواں دار انداز میں ٹورنامنٹ کا آغاز کیا تھا۔ مجموعی طور پر دس میچوں میں 174 رنز ہی اسکور کر سکے ہیں۔
لاہور قلندرز کے محمد حفیظ، فخر زمان بھی اچھی کارکردگی کے باوجود آؤٹ آف فارم دکھائی دیے جبکہ کم بیک کرنے والے عماد وسیم سات وکٹیں ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ان کے علاوہ فاسٹ بالر محمد حسنین نو وکٹیں اور ارشد اقبال آٹھ وکٹیں حاصل کرسکے ہیں جب کہ اسپنرز میں شاداب خان سات اور محمد نواز چھ وکٹیں ہی لے سکے ہیں۔
آخر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، لاہور قلندرز کو کس کی نظر لگ گئی؟
ایسا لگتا ہے کہ مسلسل چھ ایڈیشن تک ٹیم کی قیادت کرنے والے سرفراز احمد کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔
چار سیزن تک بہترین کارکردگی دکھانے والی کوئٹہ کی ٹیم پانچویں اور چھٹے سیزن میں اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھا پائی جیسی شائقین کو ان سے امید تھی۔
پی ایس ایل سیزن سکس میں سرفراز احمد کی ٹیم صرف دو ہی میچز جیتنے میں کامیاب ہو سکی اور اسے آٹھ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب گزشتہ سال کی رنرز اپ لاہور قلندرز کی ٹیم کا حال بھی رواں سیزن میں اتنا مختلف نہ تھا اور ٹیم پانچ میچز جیتنے کے باوجود اگلے مرحلے میں نہ پہنچ سکی۔
دونوں ٹیموں نے مختلف کھلاڑی استعمال کرنے کے بجائے انہی کھلاڑیوں پر انحصار کیا جن کی موجودگی میں ان کی ٹیم شکست کھا رہی تھی اور اسی قسم کے فیصلوں نے انہیں ایونٹ کے دوسرے راؤنڈ میں جانے سے روک دیا۔