عالمی ادارہ صحت کی 64 ویں علاقائی کانفرنس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جاری ہے جس میں 20 ممالک کے وزارئے صحت شریک ہیں۔
صدر ممنون حسین نے پیر کی شام کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کے عوام وسائل کی کمی کے سبب غیر معیاری غذا یا غذائی قلت اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کا شکار ہیں جس کا علاج معالجے کی تشخیص اور طریقۂ کار پرگہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ جنگوں اور خونریزی کی وجہ سے پولیو جیسا موذی مرض خطے میں ایک بڑے خطرے کے طور پر ابھرا، جس سے اُن کے بقول ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں متعلقہ اداروں کی کوششوں سے ملک میں صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے اور جلد اس موذی مرض پر مکمل طور پر قابو پا لیا جائے گا۔
پاکستانی صدر کا کہنا تھا کہ پولیو کی تباہ کاریوں سے دنیا کو یہ سبق بھی ملا ہے کہ بیماریاں جغرافیائی حدود کی پابند نہیں ہوتیں۔ انسانی نقل و حمل سے مختلف امراض کے جراثیم ایک سے دوسرے ملک اور خطوں کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ان حالات میں عالمی برادری اور خاص طور پر خطے کے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خوش دلی سے تعاون کریں اور متعدی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر جامع حکمتِ عملی اختیار کریں۔
پاکستان میں پولیو وائرس کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں نمایاں بہتری آئی ہے اور رواں سال اب تک اس مرض کے صرف پانچ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں 2014ء اس لحاظ سے بدترین سال تھا جس میں ملک بھر میں 306 بچے پولیو وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ جب کہ 2015ء میں 54 اور 2016ء میں پولیو وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد 20 تھی۔
پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان سرحدی علاقوں میں مل کر بھی کوشش کرتے رہے ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔
سلامتی کے خدشات کے سبب بھی پاکستان میں انسدادِ پولیو مہم متاثر رہی ہے۔
انسانی جسم کو اپاہج کرنے والے پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں میں شامل رضا کاروں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر ملک کے مختلف حصوں میں جان لیوا حملے ہوتے رہے ہیں۔