منگل کو پاک، افغان سرحد کے قریب انگور اڈہ میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی کو سپردِ خاک کردیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال کا شمار پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے اہم افسران میں ہوتا تھا۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آرمی پبلک اسکول حملے کے ملزمان کی گرفتاری میں بھی اُنہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
بریگیڈیئر مصطفیٰ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے ہمراہ افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکراتی عمل میں بھی شامل رہ چکے ہیں۔
یہ مذاکرات گزشتہ برس نومبر میں معطل ہو گئے تھے جس کے بعد ٹی ٹی پی نے سیکیورٹی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنوبی وزیرستان میں فرائض سر انجام دینے والے ایک اعلی سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بریگیڈیئر مصطفیٰ سرکاری اُمور کی انجام دہی کے لیے سرحدی گزرگاہ انگور اڈہ گئے تھے اور وہاں سے واپسی پر اُن کے قافلے پر حملہ ہوا۔
عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ خمرنگ رغزئی کے علاقے میں ہوا ۔ قافلے میں بریگیڈیئر مصطفی سمیت آٹھ افراد شامل تھے۔ اس حملے میں سرکاری عہدے دار کے بقول صرف بریگیڈیئر مصطفی ہلاک اور چار دیگر افراد زخمی ہوئے جب کہ تین افراد ا س حملے میں محفوط رہے۔
ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی، تاہم پاکستانی فوج نے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے سینئر صحافی دلاور وزیر کہتے ہیں بریگیڈیئر مصطفیٰ برکی کا تعلق جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا ہی سے تھا، لہذٰا اس علاقے میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بریگیڈیئر مصطفی برکی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل میں سرِ فہرست تھے۔ ان کے ہمراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ بھی مذاکراتی عمل میں شامل تھے جو ان کے ہم زلف بھی ہیں۔
اُن کے بقول بریگیڈیئر مصطفیٰ برکی کا شمار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ وہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد اگست 2021 میں کابل جانے والے وفد میں شامل تھے ۔
اسی طرح وہ بعد میں مولانا صالح شاہ اور بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذکرات کے لیے سرکاری مذاکراتی ٹیموں میں بھی شامل رہے تھے۔
مصطفی برکی اور ان کے قافلے پر ہونے والے مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔