بھارت میں انسدادِ دہشت گردی قانون 'یو اے پی اے' کے تحت قید انسانی حقوق کے کارکن فادر اسٹن سوامی کے انتقال پر بھارت کے سماجی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چوراسی سالہ اسٹن سوامی رعشہ کے مریض تھے اور پیر کو ممبئی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔
وہ خرابیٔ صحت کی بنیاد پر ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتوار کو ان کی صحت زیادہ خراب ہو گئی تھی جس کے بعد انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ لیکن پیر کو تقریباً ڈیڑھ بجے دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔
اسٹن سوامی کو اشتعال انگیز تقریر اور ملک کے خلاف سازش کے الزامات کے تحت گزشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔
فادر اسٹن سوامی مارچ سے ہی صحت کی بنیاد پر ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) ان کی ضمانت کی مخالفت کر رہی تھی۔
پیر کو ممبئی کی ایک عدالت میں ان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہو رہی تھی کہ اسی دوران ان کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا کہ فادر اسٹن سوامی انتقال کر گئے ہیں۔
ان کی صحت کے متواتر بگڑنے کی وجہ سے انہیں ممبئی کے مضافات میں واقع تلوجہ سینٹرل جیل سے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ 'این آئی اے' کا کہنا تھا کہ انہیں سرکاری اسپتال میں داخل کرایا جائے۔ لیکن فادر کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری اسپتال میں جانے پر مرنے کو ترجیح دیں گے۔
فادر اسٹن سوامی کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟
فادر اسٹن سوامی کو گزشتہ برس آٹھ اکتوبر کو بھیما کورے گاؤں کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا تعلق تمل ناڈو سے تھا لیکن وہ ریاست جھارکھنڈ کے شہر رانچی میں قیام پذیر تھے اور تقریباً 50 برسوں سے قبائلیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تھے۔
فادر اسٹن پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ماؤ نواز اور شہری نکسل وادی ہیں اور 31 دسمبر 2017 کو اُنہوں نے ایک تقریر کی تھی جس کے ایک روز بعد ممبئی کے مضافاتی بھیما کورے گاؤں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جس میں ایک شخص ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔
ماؤ باغی (نکسل وادی) زیادہ تر جنگلات اور معدنی وسائل سے مالا مال ریاستوں میں سرگرم ہیں جن میں قابل ذکر چھتیس گڑھ، اوڑیسا، بہار، جھاڑکھنڈ اور مہاراشٹر ہیں۔
اپنے تئیں غریبوں کے حقوق، ملازمتوں اور زمین کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے ان ماؤ باغیوں کی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز سے ان کی جھڑپوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔
این آئی اے نے گزشتہ برس فادر کو بھیما کورے گاؤں کیس میں تفتیش کے لیے ممبئی طلب کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی خرابیٔ صحت کی بنیاد پر حاضر ہونے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد این آئی اے نے انہیں رانچی میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں کا اظہارِ افسوس
فادر اسٹن کے انتقال پر قومی و بین الاقوامی شخصیات نے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق یورپی یونین کے خصوصی نمائندہ ایمون گلمور اور انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لاولور نے فادر اسٹن کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
لاولور نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت سے ملنے والی خبر تکلیف دہ ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتاری کے نو ماہ بعد انسانی حقوق کے کارکن فادر اسٹن سوامی انتقال کر گئے ہیں۔
گلیمور نے لاولور کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ فادر اسٹن سوامی کی موت کی خبر سے مجھے بہت دکھ پہنچا ہے۔ وہ قبائلیوں کے حقوق کے محافظ تھے۔ وہ گزشتہ نو ماہ سے جیل میں تھے۔ یورپی یونین ان کے معاملے کو انتظامیہ کے سامنے بار بار اٹھاتی رہی ہے۔
کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے بھی ان کی موت پر کہا کہ وہ انصاف اور انسانیت کے حق دار تھے۔
سرکردہ تاریخ دان رام چندر گوہا نے کہا کہ فادر سوامی نے اپنی پوری زندگی محروم طبقات کے لیے وقف کر دی تھی۔ ان کی موت 'عدالتی قتل' ہے۔
بائیں بازو کی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ ان کو ضمانت نہ دینے والے جج حضرات کے ہاتھ 'خون آلودہ' ہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایک بے درد اور سخت گیر حکومت نے انہیں عزت و وقار سے محروم کر دیا۔ اس کے ہاتھ خون آلودہ ہو گئے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتا رام یچوری نے بھی ان کی موت پر رنج و غم کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے فادر سوامی کی صحت کی تشویش ناک صورتِ حال کے پیشِ نظر اتوار کو مہاراشٹرا حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔
فادر اسٹن سوامی نے انسدادِ دہشت گردی کے قانون 'یو اے پی اے' کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کی دفعہ 43 ڈی (پانچ) آئین سے متصادم ہے۔
'این آئی اے' نے ہائی کورٹ میں سوامی کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی خرابیٔ صحت کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ این آئی اے نے الزام لگایا کہ سوامی ماؤ نواز تھے اور انہوں نے ملک میں بد امنی پھیلانے کی سازش کی تھی۔
این آئی اے نے فادر اسٹن سوامی پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کا نکسل وادیوں اور بالخصوص ممنوعہ سی پی آئی (ماؤسٹ) سے تعلق ہے۔
فادر سوامی نے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بھیما کورے گاؤں گئے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی خرابیٔ صحت کا حوالہ دے کر ضمانت طلب کی تھی۔
بھیما کورے گاؤں میں یکم جنوری 1818 کے اس واقعہ کی یاد میں ہر سال پروگرام منعقد کیا جاتا ہے جس میں مبینہ طور پر دلتوں نے اونچی ذات کے پیشوا باجی راؤ کی فوج کو شکست دی تھی۔
دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے 1928 میں پہلی بار اس واقعے کی یاد میں پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس سالانہ پروگرام کا نام ’یلغار پریشد‘ رکھا گیا ہے۔ 2018 کا پروگرام سابق ججز جسٹس بی جی کولسے پاٹل اور جسٹس پی بی ساونت نے منعقد کیا تھا۔
پولیس نے اس کیس میں متعدد سماجی کارکنوں اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کو اربن نکسل (شہری نکسل) قرار دے کر گرفتار کیا تھا۔ جن میں گوتم نولکھا، فادر اسٹن سوامی، سدھا بھاردواج، آنند تیل تمبڈے اور ورورا راؤ قابلِ ذکر ہیں۔
ان میں سے بیشتر معمر ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ ان لوگوں کے خلاف سنگین دفعات لگائی گئی ہیں اس لیے انہیں ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ‘ نے جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور ڈالنے کے لیے 11 مئی کو ایک آن لائن مہم شروع کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ کرونا وبا کے پیشِ نظر ان سماجی کارکنوں کو فوراً رہا کیا جائے۔