مذہبی آزادی کی عالمی صورت حال پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن یونائٹیڈ اسٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی تازہ رپورٹ میں محکمۂ خارجہ سے سفارش کی ہے کہ بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے میں انتہائی تشویش والے ملکوں کی فہرست میں ڈال دیا جائے۔
اس نے اپنی گزشتہ سال کی رپورٹ میں بھی بھارت سے متعلق یہی سفارش کی تھی۔
کمیشن نے 2021 کی رپورٹ میں بھارت سمیت 14 ملکوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی حکومتیں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کو نظر انداز کرتی ہیں یا پھر ان میں ملوث ہیں۔
کمیشن کی ایک پریس ریلیز کے مطابق ان میں وہ 10 ممالک بھی شامل ہیں جن کے خلاف 2020 کی رپورٹ میں بھی سفارش کی گئی تھی۔ ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اس فہرست میں میانمار، چین، اریٹیریا، ایران، نائیجیریا، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، بھارت، روس، شام اور ویتنام شامل ہیں۔
رپورٹ میں بھارت سے متعلق مزید کیا ہے؟
امریکی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی صورت حال اب بھی منفی سمت میں گامزن ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے ہندو قوم پرست پالیسیوں کو فروغ دیا ہے جس کے نتیجے میں منظم انداز میں مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
کمیشن نے خاص طور پر شہریت کے ترمیمی قانون، سی اے اے کی منظوری اور شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات میں مبینہ طور پر پولیس کے ملوث ہونے کا بھی ذکر کیا۔
کمیشن نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں کرونا وبا کے آغاز پر مذہبی اقلیتوں کے خلاف سرکاری اہلکاروں سمیت دیگر افراد کی طرف سے بھی گمراہ کن اور نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔
رپورٹ میں بابری مسجد انہدام کے تمام ملزموں کو عدالت سے بری کیے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے خلاف بولنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور ان کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔
کمیشن نے مبینہ لو جہاد کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین محمد ذاکر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کمیشن کو ایسی شکایات ملتی رہتی ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے اور ان کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
بھارتی حکومت ایسی رپورٹوں کو مسترد کرتی آئی ہے۔ اس نے گزشتہ سال کی رپورٹ پر اپنے شدید ردعمل میں کہا تھا کہ کمیشن کے مشاہدات تعصب پر مبنی ہیں اور اس کی جانب سے پہلے بھی ایسے خیالات ظاہر کیے گئے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ اِس بار کمیشن کا تبصرہ انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کمیشن کو ہی انتہائی تشویش والے زمرے میں ڈال دیا جانا چاہیے۔
بھارتی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق کے حاصل ہیں اور وہ یہاں آزادی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔