|
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دہائیوں پر محیط سیکولرائزیشن کا عمل جس تیزی سے جاری رہا امریکہ میں اس کی رفتار نسبتاً بہت کم رہی۔ لیکن حال ہی میں سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں اور دیگر شواہد سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ امریکہ میں بھی سیکولر رجحانات فروغ پا رہے ہیں۔
سن 1965 میں ہونے والے ایک گیلپ سروے میں شامل 70 فی صد امریکیوں نے مذہب کو اپنی زندگی کے لیے ’بہت اہم‘ قرار دیا تھا۔ لیکن آج نصف سے بھی کم یعنی صرف 45 فی صد امریکیوں کے لیے یہ ’بہت اہم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
گیلپ کے سینئر ایڈیٹر جیف جونز کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل کی پرورش روایتی مذہبی ماحول میں نہیں ہوئی ہے یا ایسا ہوا بھی ہو تو وہ زیادہ تر چرچ نہیں جاتے ہیں۔ شاید یہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
مذہب سیاست اور ثقافت پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے پبلک ریلیجن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ایک چوتھائی (26 فی صد) امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ 2013 میں یہ شرح 21 فی صد تھی۔
اسی تحقیق کے مطابق کسی مذہب سے وابستگی ظاہر نہ کرنے والے افراد آئندہ بھی کسی مذہب میں دل چسپی نہیں رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر صرف 9 فی صد امریکی ایسے ہیں جو مستقبل میں کسی نئے مذہب یا روحانی ٹھکانے کی تلاش میں ہیں۔
ماہرِ سیاسیات ڈیوڈ کمپبیل کے مطابق چرچ میں کم ہوتی حاضری امریکہ کی شہری زندگی میں آنے والی بڑی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکی ماضی میں دیگر قسم کے گروپس یا اجتماعی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوتے تھے البتہ منظم مذہب سے ان کی وابستگی برقرار رہی۔
کیمپبیل کے مطابق امریکی کسی گروہ یا خاص قسم کی تنظیم میں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح نہیں دیتے جہاں وہ باہمی تعاون بھی سیکھ سکتے ہوں۔ اس میں مل کر کام کرنا اور کسی معاملے پر متحرک ہونا بھی شامل ہے۔ موجودہ صورتِ حال اس سے بھی بہت کم ہے اور مذہبی رجحانات میں کمی دراصل ایک بڑی کہانی کا ایک پہلو ہے۔
ڈیوڈ کیمپبیل انڈیانا کی یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم کے پروفیسر ہیں۔ ان کے نزدیک مذہبی رجحانات میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی مذہب سے وابستگی پہلے ہی بہت کمزور ہے ان میں مذہبی خیالات رکھنے والے دائیں بازوں کے نظریات سے متعلق شدید ردِ عمل پایا جاتا ہے۔
کیمپبیل امریکہ میں مذہب اور سیاست کے تعلق پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق سے منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دائیں بازو سے متعلق پائے جانے والے ردِ عمل کو مذہب سے دوری کا واحد سبب قرار نہیں دیتے۔
کیمپبیل کے مطابق: ’’وقت کے ساتھ ساتھ کئی امریکیوں کے لیے مذہب دائیں بازو کے ہم معنی ہو گیا ہے یا وہ اسے ری پبلکن پارٹی یا (سابق صدر) ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے مساوی سمجھنے لگے ہیں۔ اس لیے یہ اگر مذہب ہے تو بہت سے لوگ اس کا کوئی بھی حصہ نہیں چاہتے۔‘‘
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک سماجیات اور سیاسیات کے پروفیسر سیم ابرامز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے سیاست میں عروج کے بعد خواتین میں مذہب سے وابستگی میں بھی کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’’آپ کا تعلق کسی مذہبی گھرانے سے ہو سکتا ہے، لیکن بالخصوص اسقاطِ حمل (ابارشن) اور خواتین کے سیاسی کردار جیسے ایشوز سے متعلق قدامت پرست بیانیے کی وجہ سے نوجوان خواتین مذہب سے دور ہو رہی ہیں، انہیں الحاد، تشکیک یا’ کچھ بھی نہ ہونے‘ جیسی شناخت اختیار کر رہی ہیں۔‘‘
ابرامز کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سیکولرائزیشن کی لہر نے لوگوں کو مذہبی تنظیموں سے دور کیا تھا اور اب انتہائی دائیں بازو نے جو صورتِ حال پیدا کی ہے اس سے یہ عمل مزید تیز کر دیا ہے۔
پیو ریسرچ پول کے مطابق جب مذہب کی بات آتی ہے تو 28 فی صد بالغ امریکی خود ملحد، متشکک یا اس بارے میں کسی خاص شناخت سے نہیں جوڑتے۔ مذہب سے تعلق کے بارے میں ’کوئی نہیں‘ کا جواب دینے والوں میں سے بھی چار فی صد ملحد ہیں جو کسی خدا یا ماورائی قوت پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر کسی خدا یا ماورائی طاقت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن مذہبی عبادات میں شریک نہیں ہوتے۔
سروے میں شامل دو تہائی افراد کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے مذہبی نہیں ہیں کیوں کہ وہ مذہبی تعلیمات سے متعلق سوالات اٹھاتے ہیں یا خدا پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔
گیلپ کے مطابق مذہبی عبادات میں شرکت کی کمی کا رجحان ہر عمر کے افراد میں دیکھا گیا ہے۔
سرد جنگ کے بعد
ڈیوڈ کیمپبیل کے مطابق 1989 میں ختم ہونے والی سرد جنگ کے بعد مذہب سے عدم وابستگی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ڈیلس بیپٹسٹ یونیورسٹی کی پروفیسر شیلی میلیا کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 وبا کے بعد کئی مذہبی اداروں کو خاص وقت کے لیے عبادت گاہوں میں سرگرمیاں روکنا پڑیں جس کی وجہ سے مذہب سے عدم وابستگی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
میلیا کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل کے لیے مذہب کو پرکشش بنانے کی بجائے ان کی نظر میں اسے مستند بنانے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول:’’ ہمارے ہاں بڑی بڑی مذہبی عمارتیں ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں نوجوان نسل ان عمارتوں کو خلافِ انصاف سمجھتی ہے۔ اس لیے وہ ایسے اداروں سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں جو ان کی دل چسپیوں سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی ملک میں لوگ مذہب سے دور ہو جائیں تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ کیمپبیل اس کے جواب میں سیکیولر ممالک کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں فعال جمہوری نظام قائم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسکینڈی نیوین ممالک بہت سیکولر ہیں اور انہیں دنیا کے بہت زیادہ جمہوری ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں لوگ سب سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک سیکولر سوسائٹی کم جمہوری یا کم خوشحال ہو۔
لیکن مذہبی اعلامتے امریکہ کی قومی روایات اور علامات میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ امریکہ کی کرنسی پر ’ان دی گاڈ وی ٹرسٹ‘ (ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں) کی عبارت درج ہے۔ صدر کے حلف میں ’خدا میرا مددگار ہو‘ کے الفاظ شامل ہیں۔ اس لیے اس بات کا کتنا امکان ہے کہ امریکہ مزید سیکیولر ہو جائے گا؟
ڈیوڈ کیمپبیل اس کے جواب میں کہتے ہیں:’’میرا اندازہ ہے کہ درمیانے یا طویل عرصے کے دوران ہم ایک ایسی صورتِ حال میں ہوں گے جہاں مذہب امریکیوں کی زندگی سے پوری طرح ختم تو نہیں ہو گا لیکن اسے وہ مقام حاصل نہیں ہو گا جو آج اس کے پاس ہے۔‘‘
(وائس آف امریکہ کے لیے ڈورا میکوار کی رپورٹ)
فورم