پاکستان کے عام انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا انتخاب تاخیر کا شکار رہا ہے اور اب ان کی کابینہ کی تشکیل بھی تعطل کا شکار ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کابینہ کی عدم تشکیل سے صوبے میں انتظامی امور متاثر ہو رہے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی حلف براداری کے بعد سے تمام محکموں کی بھاگ دوڑ اکیلے ہی سنبھالے نظر آ رہے ہیں۔
حکومتی حلقے پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان کی صوبائی کابینہ کے وزراء اور مشیروں کا اعلان دو اپریل کو سینیٹ انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔
ابھی تک صوبائی کابینہ کا اعلان کیوں نہیں کیا جا سکا ہے؟ اس تاخیر کی وجوہات کے بارے میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "کابینہ کی تشکیل میں تاخیر سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو شاید یہ لگتا ہے کہ اگر سینیٹ انتخابات سے قبل ہی کابینہ کا اعلان کیا جائے گا تو وہ لوگ جنہیں کابینہ میں جگہ نہیں ملی، خدشہ ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات میں اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینے کے بجائے ہارس ٹریڈنگ کر کے کسی اور امیداور کو ووٹ نہ دیں۔"
یاد رہے کہ ماضی میں بھی بلوچستان میں سینیٹ انتخابات کے دوران مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے واقعات سامنے آئے تھے۔
رشید بلوچ کے مطابق ماضی میں بھی سینیٹ انتخابات میں بلوچستان پیراشوٹرز کا گڑھ رہا ہے۔ سن 2018 میں جب بلوچستان عوامی پارٹی بنی تو بڑی تعداد میں پیراشوٹرز بلوچستان سے سینیٹ کی سیٹ پر کامیاب ہوئے اور آج بلوچستان سے جتنے بھی سینیٹرز موجود یا ریٹائرڈ ہیں پیراشوٹرز ہی ہیں۔
حق دو تحریک کے سربراہ ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا ہے کہ وفاقی سیاسی جماعتوں کے قائدین بلوچستان کے منتخب نمائندوں پر اعتماد نہیں کرتے اس لیے کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔
گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے بعد وفاق اور تینوں صوبوں میں کابینہ تشکیل دے دی گئی ہیں۔ لیکن بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے کہ جہاں تاحال یہ اہم آئینی عمل نہیں مکمل کیا جا سکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بلوچستان کے منتخب نمائندوں پر اعتماد نہ ہونا ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات میں کہیں ادھر ادھر نہ ہو جائیں جو افسوس کا مقام ہے۔ ہمیں اپنے اعتماد اور صوبے کے وقار کو برقرار رکھنا چاہیے۔
صوبائی کابینہ کی وزارتوں کا فارمولا کیا ہو گا؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اتحادی جماعتوں میں صوبائی کابینہ کی تشکیل اور وزارتوں کی تقسیم کا فارمولا مرکز میں طے ہو چکا ہے۔
ان کے بقول پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے اس فیصلے سے اراکینِ صوبائی اسمبلی بھی متفق ہیں۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان کی حکومت میں شامل جماعتوں کی مرکزی قیادت کے طے کردہ فارمولے کے مطابق صوبے کی 19 رکنی کابینہ میں 14 وزیر اور پانچ مشیر شامل ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق اس فارمولے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حصے میں چھ، چھ وزارتیں آئیں گی۔
اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک، ایک وزارت ملے گی جب کہ اتحادیوں کے حصے میں پانچ مشیر آئیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی پہلے ہی اس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ان کی کابینہ آئین کے مطابق تشکیل دی جائے گی، اس سے بڑھ کر کسی اضافی مشیران کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ماضی میں بلوچستان کی کابینہ میں ایک درجن سے زائد مشیروں کو شامل کیا گیا تھا جسے حکومتی خزانے پر بوجھ سمجھا جاتا تھا۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت میں 65 رکنی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں کابینہ کا حصہ تھی۔ جب کہ ان کی حکومت میں اسمبلی میں ایک ہی رکن سردار یار محمد رند اپوزیشن کا حصہ تھے۔
رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ کابینہ میں تاخیر کی ایک وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی وزارتوں میں 60 فی صد حصے کا مطالبہ بھی ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر نے کہا ہے کہ ہمیں جب تک صوبائی کابینہ میں 60 فی صد شراکت داری نہیں ملتی تب تک کابینہ نہیں بنائی جاسکے گی۔
رشید بلوچ کہتے ہیں ایسی خبروں کی وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے تردید بھی سامنے آئی ہے۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں سابق حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بھی اس مرتبہ اتحادی جماعت کا حصہ ہے اور وہ بھی زیادہ وزارتیں مانگ رہی ہے۔
رشید بلوچ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت نے پاکستان پیپلز پارٹی سے کہا ہے کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنے کوٹے سے وزارتیں دیں۔
کیا بلوچستان میں اتحادیوں میں کوئی اختلاف ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے بلوچستان کابینہ میں تاخیر کی وجہ صرف سینیٹ کے انتخابات ہی نہیں بلکہ وفاقی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات بھی ہیں۔
نجی ٹی وی چینل '92 نیوز' کے بیورو چیف اور تجزیہ کار خلیل احمد سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی نئی حکومت کو قائم ہوئے تقریباً ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہونے والا ہے تاہم اب تک اتحادیوں میں وزارتوں کے مسئلے چل رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان کی نئی کابینہ ایوانِ بالا کے انتخابات کے بعد چار اپریل کو حلف لے گی۔
انہوں نے کہا کہ اب تک اتحادی جماعتوں میں ابھرنے والے اختلافات کھل کر سامنے تو نہیں آئے ہیں تاہم بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین میں سے ہر کوئی وزیر بننا چاہتا ہے۔
تاہم بلوچستان کے نو منتخب وزیر اعلیٰ کے لیے یہ امتحان کا باعث ہے کہ وہ کس کو وزارت دیں۔ کیوں کہ بلوچستان اسمبلی میں بڑی تعداد میں اراکینِ اسمبلی قبائلی شخصیات پر مشتمل ہے اور ہر کوئی نہ صرف وزارت بلکہ اچھے محکمے کا طلب گار ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بھی گزشتہ دنوں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں ان خبروں کی تردید کی ہے کہ اتحادیوں میں اختلافات کے باعث صوبائی کابینہ تشکیل نہیں دی جا رہی ہے۔
اسی طرح پاکستان مسلم لیگ کے نو منتخب رکنِ صوبائی اسمبلی زرک مندوخیل نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی قائدین اس سلسلے میں جو فیصلہ کریں گی صوبائی اراکین ان فیصلوں کی پابندی کریں گے۔
فورم