|
لاہور__پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پاکستان کرکٹ بورڈ پر چھاپے کے بارے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس نے پی ایس ایل اور انٹرنیشنل میچوں کی ٹکٹوں کی فروخت پر ملنے والی شکایات پر تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
ایف آئی اے لاہور کے حکام کے مطابق اُنہیں ایک نجی کمپنی کی جانب سے شکایات ملی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ٹکٹوں کے شعبے میں کروڑوں روپے مالیت کا مبینہ فراڈ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان شکایات پر ایف آئی اے لاہور نے پی سی بی کے ٹکٹوں کے شعبے کی انچارج مہوش عمر کو متعدد بار طلبی کے نوٹسز بھیجے تھے مگر وہ پیش نہیں ہوئیں۔
لاہور میں ایف آئی اے کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مہوش عمر کے پیش نہ ہونے پر اُنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ٹکٹنگ کے شعبے چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا ہے۔
چھاپے کے بعد اور شعبہ کی انچارج مہوش عمر کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے ایف آئی اے لاہور کی ٹیم اپنے ساتھ دفتر لے گئی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ٹکٹوں کی تقسیم کی تحقیقات کے سلسلے میں اُنہوں نے مہوش عمر کا بیان ریکارڈ کیا ہے اور بعد ازاں اُنہیں گھر جانے دیا گیا تھا۔
حکام نے دعوٰی کیا کہ پی ایس ایل اور انٹرنیشنل میچوں کی ٹکٹوں کی فروخت میں کروڑوں روپے کی خورد برد کی گئی ہے اور سینکڑوں ٹکٹوں کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق اُنہوں نے جو ریکارڈ قبضے میں لیا ہے وہ اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں پی سی بی کے دیگر افسران کو بھی طلب کیا جائے گا۔
پی سی بی میں ٹکٹوں کے مبینہ گھپلوں کی تحقیقی کرنے والے ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور سرفراز احمد ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے نے پی سی بی کے شعبہ ٹکٹکنگ سے تمام ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ جس کی جانچ پڑتال جاری ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور ایف آئی اے سرفراز ورک کا کہنا تھا کہ پی سی بی نے جن کمپنیوں کے ذریعے ٹکٹ فروخت کیے اور جو فرنچائز اِس کاروبار سے منسلک رہیں اُن تمام کا ریکارڈ ایف آئی اے نے حاصل کر لیا ہے۔
سرفراز ورک کا کہنا تھا کہ انکوائری مکمل ہونے پر اگر کوئی خوردبرد پائی گئی تو اِس میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ مبینہ گھپلے کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا وہ 80 ہزار روپے کا ہے یا زیادہ کا۔ اس بارے تحقیقات جاری ہیں۔
پی سی بی کا تبصرے سے انکار
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے ایف آئی اے کے چھاپے اور کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقاتی ادارے نے پیر کی شام کارروائی کی تھی جس پر وہ مزید کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
ترجمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کی پالیسی ہے کہ یہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ جس پر کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا جا سکتا۔ اِس معاملے کو پی سی بی کے اعلٰی حکام دیکھ رہے ہیں۔
ترجمان پی سی بی کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ٹکٹوں کی فروخت کو براہِ راست نہیں دیکھتا۔ تمام ٹکٹس آوٹ سورس یعنی تھرڈ پارٹی کے ذریعے فروخت کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پی ایس ایل اور دیگر میچوں کی فروخت کا معاہدہ ٹی سی ایس نامی کمپنی کے ساتھ ہے۔ پی سی بی ٹکٹوں کی تقیسم کے معاہدے کو کھلی بولی کے ذریعے فروخت کرتی ہے۔ معیار اور اہلیت رکھنے والی کوئی بھی کمپنی اِس بولی میں حصہ لے سکتی ہے۔
ترجمان پی سی بی کے مطابق ٹی سی ایس سے قبل ٹکٹوں کی فروخت کا ٹھیکہ بُک می نامی کمپنی کے پاس تھا۔ معاہدہ ختم ہونے پر بُک می کمپنی دوبارہ ٹھیکہ حاصل نہیں کر سکی تھی۔
واضح رہے ٹی سی ایس ایک نجی کورئیر کمپنی ہے۔
رواں برس ہونے والے پی ایس ایل کے سیزن 9 کے لیے پی سی بی نے ٹکٹوں کی قیمت 750 روپے سے پانچ ہزار روپے تک رکھی تھی۔ یہ ٹکٹ آن لائن اور کمپنی کے مخصوص بوتھس پر دستیاب تھے۔
کیش فروخت کا معاملہ؟
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلہ میں پی سی بی کی انچارج شعبہ ٹکٹنگ مہوش عمر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکیں۔ تاہم اُن کی قریبی ساتھی کے مطابق یہ ایک بولی ہار جانے والی کمپنی کی شرارت ہے۔ جس کے ایماء پر یہ سب کچھ ہوا ہے۔
مہوش عمر کے قریی ساتھی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایف آئی اے جس کیس کی تحقیقات کر رہی ہے وہ اصل میں 2023 کے پی ایس ایل 8 کی ٹکٹوں کی فروخت کا معاملہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی سی بی کے عملے میں سے کوئی بھی نقد رقوم وصول نہیں کرسکتا۔ پی ایس ایل 8 کے لیے پاکستان میں کام کرنے والے ایک غیر ملکی سفارت خانے کو پی ایس ایل کے میچوں کے لیے کچھ ٹکٹس درکار تھیں۔ جس کے لیے اُنہوں نے پی سی بی سے رابطہ کیا۔
مہوش عمر کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ صرف اُن ٹکٹوں کی فروخت کیش میں کی گئی۔ جس کی کل رقم ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتی ہے اور اِس رقم کو اگلے دن پی سی بی کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مہوش عمر معمول کے مطابق جمعرات کو پی سی بی کے دفتر میں جائیں گی اور دفتری اُمور نمٹائیں گی اور ایف آئی اے سے متعلق وہ پی سی بی کے سی ای او سے بھی رابطہ کریں گی۔
مہوش عمر کی قریبی ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ پی سی بی میں ملازمت کرنے سے قبل فرانس میں رہتی تھیں اور اُنہوں نے اپنی محنت سے پی سی بی کو 60 کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس دیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلہ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین سید محسن نقوی سے رابطہ کیا لیکن اُن کی جانب سے تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
محسن نقوی پی سی پی کے چیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیرِ داخلہ بھی ہیں اور ایف آئی اے براہِ راست ان کے ماتحت آنے والا تحقیقاتی ادارہ ہے۔
نجم سیٹھی کیا کہتے ہیں؟
اس بارے میں سابق چئیرمین پی سی بی نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ کہ اِس طرح سے پی سی بی کی پیشہ وارانہ ٹیم کےساتھ برتاؤ ناانصافی پر مبنی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ مہوش عمر نے پاکستان میں کرکٹ کی ترقی اور پی ایس ایل کی کامیابی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے مہوش عمر پر 80 ہزار روپے کی خوردبرد کا الزام لگایا ہے جبکہ پی ایس ایل 2023 میں ٹکٹوں کی فروخت تقریباً ساٹھ کروڑ روپے کے لگ بھگ تھی۔
ان کاکہنا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں خورد برد کا الزام بُک می نامی ایک کمپنی نے لگایا ہے جو ایک صاف شفاف بِڈ میں اپنا کنٹریکٹ حاصل نہیں کر سکی تھی۔
سابق چئرمین پی سی بی نے مزید کہا کہ پی سی بی کی ایک ذمہ دار پیشہ وارانہ خاتون افسر کے ساتھ اِس طرح کا ہتک آمیز رویہ درست نہیں۔ جس پر وہ مہوش عمر کے ساتھ ہیں اور وہ اِس سلسلہ میں موجودہ چئیرمین پی سی بی سید محسن نقوی سے بھی رابطہ کریں گے۔
فورم