رسائی کے لنکس

انتخابی اصلاحات پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی: کیا حکومت کو عددی اکثریت پر مشکلات کا سامنا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو ہونا تھا جسے اس کے انعقاد سے کچھ گھنٹوں قبل ہی ملتوی کردیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق اجلاس میں انتخابی اصلاحات سمیت متعدد قانونی بل منظوری کے لیے پیش کیے جانے تھے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کرنے کا مقصد انتخابی اصلاحات سے متعلق مشترکہ بل لانے پر حزبِ اختلاف کو قائل کرنا ہے۔

حکومت نے یہ اجلاس ایسے وقت میں ملتوی کیا ہے جب منگل کو حزب اختلاف نے قومی اسمبلی میں دو قانونی بلوں کی منظوری پر حکومت کو شکست دی تھی۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن نے یہ دعویٰ کر رکھا تھا کہ وہ حکومت کو یہ قانون سازی نہیں کرنے دے گی اور اس حوالے سے اس کے پاس پارلیمان میں عددی تعداد پوری ہے۔

ادھر بدھ کو وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی اراکین پر مشترکہ اجلاس میں شرکت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اراکین جہاد سمجھ کر قانون سازی میں حصہ لیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل کے نتیجے میں ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ممکن ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ حزبِ اختلاف نے اس پر کوئی تجویز نہیں دی ہے۔

'انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے کی کوشش کر رہے ہیں'

دوسری جانب ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں مشترکہ اجلاس کے التوا پر بحث کی جا رہی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل ہر ووٹ نہ کرنے کے اعلان کے بعد حکومت قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں درکار عددی اکثریت حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار تھی۔

پاکستانی پارلیمان میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کو قومی اسمبلی یعنی ایوانِ زیریں میں اکثریت حاصل ہے جب کہ سینیٹ یعنی ایوان بالا میں اکثریت حزبِ اختلاف رکھتی ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ‏حکومت نیک نیتی سے کوشش کر رہی ہے کہ انتخابی اصلاحات پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکے اور اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپوزیشن سے بات چیت کرکے متفقہ انتخابی اصلاحات کا بل لانے کی کوشش کریں گے۔

فواد چوہدری نے امید ظاہر کی کہ اپوزیشن ان اہم اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور پاکستان کے مسقبل کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر پائیں گے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں حکومت اصلاحات سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ق) کے تحفظات

وفاقی کابینہ میں شامل حکومت کے اتحادی رہنماؤں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے اتحادی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں انتخابی اصلاحات اور الیکٹرک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

اتحادی اراکین کے مطابق وزیرِ اعظم نے اس معاملے پر مزید مشاورت کی یقین دہانی کرائی اور جمعرات کو ہونے والے مشترکہ اجلاس کو ملتوی کردیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق نے بتایا کہ انتخابی اصلاحات بل پر اتحادی جماعتوں کے تحفظات ہیں اور وزیر اعظم نے ان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ اجلاس ملتوی کیا ہے۔

حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں نے وزیرِاعظم سے کہا کہ انتخابی اصلاحات پر ان کی پارٹی قیادت سے مشاورت کرنا ضروری ہے لہٰذا اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔

'حکومت پارلیمان میں ہار چکی ہے'

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ میں ہار چکی ہے اسی لیے مشترکہ اجلاس مؤخر کرنا پڑا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں حزبِ اختلاف کے اراکین کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے اتحاد کی وجہ سے منگل کو قومی اسمبلی میں حکومت کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب حکومت پر اس کے اتحادی بھی اعتماد نہیں کر رہے ہیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کتنی محفوظ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:18 0:00

پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت اگر انتخابی اصلاحات بل پر بات کرنا چاہتی ہے تو ضرور کریں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ حکومت ہماری تجاویز کو ماننے پر آمادگی ظاہر کرے۔

خیال رہے کہ خورشید شاہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے منگل کو طارق بشیر چیمہ سے ملاقات کی تھی اور انہیں انتخابی اصلاحات بل پر ووٹ نہ دینے کا مشورہ دیا تھا۔

اس ملاقات کے بعد خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق نے انتخابی اصلاحات بل پر ووٹ نہ کرنے کے حوالے سے مثبت جواب دیا۔

مشترکہ ایوان کی عددی صورتِ حال

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی عددی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو 442 کے مشترکہ ایوان میں قانون سازی کے لیے 22 ارکان کی حمایت یا ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت درکار ہوگی۔

اس وقت قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ 180 ووٹ ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس ووٹ کی تعداد 158 ہے۔ اس کے علاوہ جماعتِ اسلامی کے چار اراکین علیحدہ حیثیت میں موجود ہیں۔

سینیٹ کے سو ارکان پر مشتمل ایوان میں حزب اختلاف کو 52 جب کہ حکومت کو 48 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

عددی اعتبار سے دیکھا جائے تو حکومت کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ 442 کے مشترکہ ایوان میں 228 کی اکثریت حاصل ہے۔

XS
SM
MD
LG