رسائی کے لنکس

عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش: حکومت دلچسپی کیوں نہیں لے رہی؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ملک میں نئے انتخابات کے اپنے مطالبے پر حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی تاہم حکمران اتحاد نے اس پیش کش پر تاحال دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔

رواں سال اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ عمران خان نے مخالف سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکرات کی پیش کش سے متعلق عمران خان کا بیان سامنے آنے کے باجود ہ حکومتی اتحاد کیوں اس پیش کش کا جواب دینے سے گریزاں ہے؟ سیاسی مبصرین اس سوال کو اہم قرار دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ لے کر مسلسل احتجاج کی سیاست کررہے ہیں ۔ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے جلسوں، لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان سمیت سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف طریقےاختیار کرچکے ہیں اور یوں سیاسی فضا مسلسل بے یقینی سے دوچار ہے۔

ان حالات میں سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر ہی سیاسی مسائل کا حل نکالنا چاہیے اور یہی راستہ ملک میں جمہوریت کی پائیداری اور اداروں کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔

’حکومت نے پیش کش کو سنجیدہ نہیں لیا‘

تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ حکومت نے عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش کو اس قدر سنجیدہ نہیں لیا ہے جیسا کہ تحریک انصاف توقع کررہی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عمران خان سمجھ رہے تھے کہ ان کی مذاکرات کی پیش کش کو حکومت فوری قبول کرلے گی اور قبل از وقت انتخابات ہوجائیں گے۔ لیکن ان کے بقول، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے نظر نہیں آتے۔

سلیم بخاری نے کہا کہ حکومت نے اگرچہ عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش مسترد نہیں کی ہے لیکن ان کے خیال میں وہ چاہتے ہیں کہ یہ مذاکرات کسی پیشگی شرائط کے بغیر ہوں۔

ان کے بقول حکومت نے مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھا لیا ہے اور اب وہ سمجھتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ سے بھی دور چلا گیا ہے تو قبل از وقت انتخابات ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ عام انتخابات قبل از وقت کرائے جائیں تو ایسے میں یہ معاملہ کسی منطقی نتیجے کی طرف جاتا دکھائی نہیں دیتا۔

’انتخابات پر حکومتی اتحاد میں مختلف آرا ہیں‘

صحافی خاور گھمن کہتے ہیں کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں قبل از وقت انتخابات پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں اور حکومت اسی وقت عمران خان کی مذاکرات کی دعوت پر بات آگے بڑھائے گی جب سب اتحادی جماعتیں کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائیں گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد انتخابات میں جانے سے کچھ خوف زدہ بھی ہے کیوں کہ عمران خان اس وقت عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور حکومت میں شامل جماعتوں کو لگتا ہے کہ ان کے لیے ایسے حالات میں انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات میں انتخابات کے علاوہ ’میثاقِ معیشت‘ اور ’میثاقَ جمہوریت‘ پر بھی بات چیت کی جائے جب کہ عمران خان صرف انتخابات پر بات چیت چاہتے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر بات چیت شروع ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔

اسمبلیاں تحلیل ہوں گی؟

اکتوبر میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے حکومتی وزرا پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا مقصد عمران خان کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا۔

عمران خان کی انتخابات کے لیے مذاکرات کی پیش کش پر وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے ٹوئٹ کیا کہ وہ عمران خان کے مطالبے پر انتخابات کی تاریخ دے رہی ہیں جو کہ اکتوبر 2023 میں ہوں گے۔ تاہم حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ مل بیٹھنے سے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کو براہ راست مذاکرات کی دعوت کو اہم سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیوں کہ اس سے قبل عمران خان حکومت و سیاسی قیادت سے مذاکرات کے امکان کو رد کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ پہلے حکومت الیکشن کی تاریخ دے اس کے بعد ہی بات چیت ہو سکتی ہے۔

حکومت کو مذاکرات کی دعوت کے ساتھ عمران خان نے انتخابات کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ ان دونوں صوبوں میں ان کی جماعت کی حکومت ہے۔

ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایسے کون سے محرکات پیدا ہوئے جس کے باعث عمران خان نے حکومت کو براہ راست بات چیت کی دعوت دی اور اگر حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو کیا عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل کا انتہائی اقدام کریں گے؟

تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان نے لانگ مارچ سے جو توقعات رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں اور اس وجہ سے انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور پنجاب کے وزیرِ اعلی پرویز الہی نے بھی عمران خان کے سامنے اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی کچھ وجوہ رکھی ہیں۔

سلیم بخاری نے کہا کہ اب ایسے بیانات سامنے آچکے ہیں کہ پی ٹی آئی مارچ تک اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو فوری انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

’مذاکرات کی پیش کش یوٹرن نہیں‘

صحافی خاور گھمن نے کہا کہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران خان کا ہر سیاسی فیصلہ ان کی سوجھ بوجھ میں اضافے کا اظہار کرتا ہے اور اس کی بنیاد ان کا اعتماد ہے کہ وہ عوام میں مقبول ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی سیاسی اعتماد کی وجہ سے وہ حکومت کے ساتھ معاملات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ آئینی مطالبہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پالیسی بیان دیا جاچکا ہے کہ عام انتخابات کے لیے کسی بھی سطح پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لہذا عمران خان کی حکومت کو مذاکرات کی دعوت کو یوٹرن نہیں کہا جاسکتا۔

خاور گھمن نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تنبیہ عمران خان کی اپنے مطالبے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھانے کی ایک ترکیب ہے اور اگر حکومت وفاق میں انتخابات نہیں کراتی تو پی ٹی آئی دو صوبوں میں انتخابات کی طرف جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ 66 فی صد پاکستان میں انتخابات ہوں اور باقی ملک خود کو اس عمل سے الگ رکھ سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان انتخابات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی عوام پی ٹی آئی کا انتخاب کرتے ہیں تو چند ماہ کے بعد لوگ کسی اور کا انتخاب یقینا نہیں کریں گے۔

اگرچہ آئین و قانون میں ایسی کوئی پابند ی نہیں ہے تاہم پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اس لیے دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں یا تو حکومت کو وہاں علیحدہ سے نئے انتخابات کرانے پڑیں گے یا پھر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے ایک ساتھ قبل از وقت عام انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG